تحریر : ممتاز اعوان سوال : فلاح انسانیت فائونڈیشن نے 2005ئ کے زلزلہ سے لے کر سونامی تک شاندار اور روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ یہ بتائیں کہ برما کے مسلمانوں کے لئے بھی آ پ کچھ کر رہے ہیں؟ جواب : برما کے مسلمان اس وقت واقعتا انتہائی مظلومیت کا شکار ہیں۔ وہاںکی حکومت ،فوج اور مختلف جماعتوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اس مقصد کی خاطر نسل کشی ہو رہی ہے۔ مسلمانوں کی حالت بہت ہی ناگفتہ بہ ہے ۔ برما کے مسلمانوں سے ہمارا 20سال سے رابطہ ہے۔اس کے بعد جب 2012 ء میں مسلمانوںکا بہت زیادہ قتل عام شروع ہواتو اس وقت ہمارے ساتھی وہاں پہنچے۔ ہمارے ساتھیوں نے برمی مسلمانوں پر ٹوٹنے والی قیا مت کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتایا اس کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں جو اخبارات یا چینلز پر آرہا ہے۔جب برمی مسلمانوں پر وہاں کی زمین بلکل ہی تنگ ہو گئی اور ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا تو انہوں نے اپنے بچوں اور خواتین کو کشتیوں میںبیٹھا کر اس امید پر سمندر میں دھکیل دیا کہ شائد کسی ملک میں ان کو پناہ مل جائے یہ کئی ماہ تک سمندر میں بھٹکتے رہے،بھو ک سے بلکتے رہے،سینکڑوں بچے ایک ایک دن میں مرتے رہے۔
ملائشیا،بنکاک میں گئے انہیں ساحلوں پر نہیں ا تر نے دیا گیا مایوس ہوکر جب انڈونیشیا پہنچے تو باقی ماندہ بچے اور خواتین بیہوش اور قریب المرگ تھے۔پھر حکومت انڈونیشیا نے صوبہ آچے میں تیرہ ایکڑجگہ دی جہاں زندہ بچ جانے والے ٹھہرائے گئے۔یہاں میں آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ 2005ء کے زلزلہ میں سب سے زیادہ ڈاکٹر انڈونیشیا سے پاکستان آئے تھے تب سے ہمارا اور ان کا باہمی رابطہ تھا جب برمی مہاجرین دھکے کھاتے کھاتے انڈونیشیا پہنچے تو ہم نے وہاں کے ان ڈاکٹرو ں اور مسلمان تنظیموں سے رابطہ کیا جو زلزلہ کے موقع پر ہمارے پاس آئے تھے۔میں نے خود بھی انڈونیشیا کے زلزلے کے موقع پر وہاں کام کیا ہے۔اس اعتبار سے ہمارے ان کے ساتھ پہلے سے مضبوط رابطے ہیں۔اس کے بعد ہم نے پاکستان سے ڈاکٹروں اور والنٹیئرزکی ٹیمیں بھیجیں جو اب تک وہاں کام کر رہی ہیں ۔آپ کو یہ جان کر یقینا خوشی ہو گی کہ اس وقت آچے کے کیمپوں میںفلاح انسانیت فائونڈیشن کی طرف سے 3600افراد کا روزانہ کھانا پک رہا ہے سحر وافطار کا اہتمام ہو رہا ہے اور ایک ہزار سے زائدعارضی گھر بنانے کا پلان تیا ر ہو چکا ہے۔ ایک سو گھروں کی تعمیر کا خرچہ ایک کروڑ روپے ہے۔چند دن میں یہ گھربرمی مسلمان مہاجرین کے حوالے کر دیئے جائیں گے ان شاء اللہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ہونے کے ناطے برما سمیت دنیا کے تمام مظلوم بھایئوں کی مدد ہمارا فرض ہے اس فرض میں کسی قسم کی کوتاہی ہمارے لئے عذاب الہی کا سبب بن سکتی ہے ۔ اسی طرح ہم کشمیر کے مسلمانوں کے لیے کام کررہے ہیں ۔ غزہ کے مسلمان بچوں کے لئے بھی ڈیڑھ کروڑ مالیت کا سامان بھیجا ہے ۔ اس رمضان المبارک میں مزید ایک بڑا پیکیج بھیج رہے ہیں۔
سوال : اندرون سندھ تھرپارکر کا علاقہ شدید قحط سالی کا شکار ہے۔یہاں آپ کے کام کی کیا صورت حال ہے؟ جواب : تھرپارکرمیں ہم2002ء سے کام کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں کی زندگی کوالفاظ’جملوں’تحریر، تقریرمیں سمجھنا اور بیان کرنا ممکن نہیں۔ اگرہم کہیںکہ تھرپارکرمیں لوگوں کے گھر ہیں توایسانہیں ہے۔ وہاں کے لوگ گھاس پھوس کی جھونپڑیاں بناکر رہتے ہیں۔باہر سے نگاہ ڈالتے ہی ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایسی جھونپڑی میں توجانور بھی رہنا پسند نہ کریں۔ بارش اس میں برستی ہے۔ ریت کے جھکڑ اس میں چلتے ہیں۔جب بندہ اس میں جھانک کر دیکھتا ہے تو تین چار رلیوں(پرانے کپڑوں کے ٹکڑے جوڑ کر بنائی گئی چادر)اوردس بارہ ٹوٹے پھوٹے شکستہ برتنوں کے سوا پورے گھر میں کچھ نہیں ہے۔ ریت اور صحرا کا سفر ہے۔ لوگ آج بھی اونٹوں پر سفرکرتے ہیں۔ پوراپورا دن پیدل چلتے ہیں۔ سکول نام کی اس صحرا میں کوئی چیز نہیں ہے۔ تھرپارکر کے لوگوں کو تویہ بھی کوئی بتانے والانہ تھا کہ تم بیمارہو اوربیماری سے نجات کے لیے علاج ہے۔آج بھی یہ کیفیت ہے کہ جس گوٹھ میں کوئی عورت پیداہوئی ‘ ساری زندگی وہیں گزار کر مر گئی۔اس نے گوٹھ سے باہرکچھ نہیں دیکھا۔ کبھی جلتی لائٹ نہیں دیکھی’وہاں بجلی کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتااوراتنے پیسے نہیں کہ رات کوگھرمیں چراغ جلاسکیں۔
Happy Women Day
8مارچ عورتوں کا عالمی دن منایاجاتاہے۔ اس روز حقوق نسواں کے نام پر دنیا بھر سے پیسے بٹورنے والی روشن خیال عورتیں پاکستان کی عورت کی بے بسی کاروناروتی ہیں۔مباحثے ‘مذاکرے اور اخبارات میں ایڈیشن شائع ہوتے ہیںلیکن کوئی ماڈرن عورت مظلوم عورتوں کے دکھ درد بانٹنے تھرپارکرکی طرف نہیں آتی۔یہاں کی عورت صبح سویرے پانچ پانچ مٹکے اٹھائے پانی لینے کے لیے جاتی ہے اور بمشکل دوپہر تک واپس آتی ہے۔ کئی کئی میل پیدل ننگے پاؤں’ تپتے صحرا میں چلتی ہے۔کچھ دن پہلے ہم ننگرپارکرکے ایک گوٹھ میں تھے جو بارڈرپرواقع ہے۔ تالاب میں سے عورتیں پانی بھررہی تھیں’ میری آنکھوں کے سامنے اس تالاب سے کتاپانی سے باہرنکلا۔ اس پانی میں گائے’بھینسوں کاگوبر تھا اور بکریاں مینگنیاں کررہی تھیں۔ اس کے باوجود لوگ پانی پی رہے تھے اور اپنے پاؤں اس میں دھو رہے تھے ۔پانی اس قدر آلودہ تھاکہ اگرہم اپنے پاؤں اس میں ڈال دیں تو پاؤں گندے ہوجائیں۔یہاں کوئی کارخانہ نہیں ، مزدوری کے مواقع نہیں ،کوئی زراعت نہیں،یہ تو صرف گھاس کاانتظارکرتے ہیں۔ ان کے جانور گھاس کھاتے ہیں’جب گھاس نہیں توپھرقحط اوربھوک وافلاس ان کے جانور کھاجاتی ہے۔ یہ لوگ توبیچارے بھوک کے مارے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑی بیماری بھوک ہے جس نے انہیں لاغر ڈھانچے بناکررکھ دیا اور ان کی قوت مدافعت ختم کردی ہے۔ بھوک سے ہی تمام بیماریاں حملہ آور ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بھوک بچے میں نہیں ہے بلکہ بچے کی ماں کی ہے۔ ماں ہی بچے کوخوراک نہیں دے سکتی ۔ ماں کبھی اچار کے ساتھ اور کبھی نمک مرچ کو جوہڑکے گندے پانی میں گھول کر روٹی کھائے گی تووہ بچے کو خوراک کیسے مہیاکرے گی۔ ان کے گھروں میں کبھی سالن نہیں پکتا۔ یہاں کئی کئی دن تک فاقے ہوتے ہیں۔
سوال : بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تھرپارکر کے بچوںکی اموات کی بہت زیادہ خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں اس بارے میں آگاہ فرمائیں؟ جواب : بچے واقعی کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے صحتمند ہوں گے تو قوم صحتمند ہو گی۔ تھرپارکر میںبچوںکی اموات جب کی بنیادی وجہ بھوک ہے۔ تھرپارکر میں جب قحط سالی کے بادل چھا گئے تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے لوگ بچوں کو لے کر پوری پوری رات چلتے رہے۔راستے میں کھانے کے لئے خوراک اور پینے کے لئے پانی نہ تھا۔ ننگے پاؤں سڑکوں پر بچے بلکتے رہے ۔ان حالات میں جب بیماریاں پھوٹیں توہسپتالوں میں ایک دنیا آباد ہوگئی۔ مٹھی کا ہسپتال چھوٹا پڑگیا۔ ایک بستر پر تین تین مریض تھے۔ایک رات کے اندرپانچ بچوں کی اموات ہوئیں۔ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں نومولود بچوں کی نرسری دیکھ کر خوف الٰہی سے انسان کاپورا جسم لرز جاتا تھا ۔ یہاں ایک ایسا بچہ بھی دیکھا جسے اس دنیامیں آئے آٹھ مہینے ہوچکے تھے مگر وہ ایک دن کے بچے سے بھی بہت چھوٹالگتا تھا۔ پانچ سال کی بچی دیکھ کر ایسے لگا’وہ ایک سال کی ہو۔غذائی قلت تھرپارکرکابڑامسئلہ ہیں۔ہم ایک دور درازگاؤں کیھڑی میں گئے تو وہاں ہم نے دیکھا کہ بچوں کے پاس تن ڈھانپنے کو کپڑے اور پہننے کو جوتے تک نہ تھے۔
سوال : فلاح انسانیت فائونڈیشن عرصہ دراز سے تھر پارکر میں فلاحی خدمات انجام دے رہی ہے’ماضی اور حالیہ قحط میں فائونڈیشن کی خدمات سے آگاہ فرمائیں؟ جواب : یہاں بنیادی ضرورت پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے ۔ چناچہ ہم نے پانی کے کئی منصوبے شروع کیے۔کنوئیں کھودے ،عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا گوشت تقسیم کیا،کنوؤں کی کھدائی کاکام ہندومسلم کی تفریق کے بغیرانسانیت کی بنیاد پر کیا۔ ہم نے چندسالوں میں یہاں 850واٹرپروجیکٹ مکمل کیے ہیں ‘جن میں کنوئیں اورہینڈپمپ شامل ہیں۔ہماری یہ خدمات جہاں تھرپارکر کے باسیوں کی پیاس بجھاتی ہیں وہاں ڈونرکے لیے راہ نجات کا باعث بنتی ہیں۔ آ پ کے لئے یہ بات یقینا باعث مسرت ہو گی کہ اس وقت ہماری کوششوںسے تھرپارکر کے 800گوٹھوں تک صاف پانی کی سہولت دستیاب ہوچکی ہے۔
Medical Camp
اسی طرح ہم نے سال میں کئی کئی بارمیڈیکل کیمپ اور امراض چشم کے لیے کیمپ لگائے۔ یہاں بچوں کو تعلیم دلوانے کے حوالے سے کام کیا۔ اس وقت بھی تھرپارکرکے بچے ہمارے مدارس اورسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ہم نے یہاں کپڑے اور گاہے گاہے نقد رقوم تقسیم کیں۔ یہاں کے نوجوانوں کو ڈسپنسر کورس کروائے تاکہ تھرپارکر کے اندرمستقل بنیادوںمیڈیکل کی سہولتیں دی جاسکیں۔ ہم نے سب سے پہلے ہسپتالوں اور طبی سہولیات کو فوکس کیا بچوں کے لیے نقد رقوم تقسیم کیں۔ان کی خوراک کے لیے دودھ’ جوس’ انرجی بسکٹ’منرل واٹر’ ORS اور نرم غذاؤں کابندوبست کیا۔لواحقین کے لیے روزانہ چاول پکاکرتقسیم کیے۔اسی طرح تھرپارکر کی35یونین کونسلوں کے لیے پلاننگ کرلی ہے۔ گوٹھ گوٹھ ہماری میڈیکل ٹیمیں جارہی ہیں۔ابتک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مریض چیک کیے ہیں۔اس وقت بھی میڈیکل ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ ہماری ایک میڈیکل ٹیم ایسے علاقے میں پہنچی جہاں سڑک اور کچاراستہ بھی نہ تھا۔ڈاکٹرز اورپیرامیڈیکل سٹاف سروں پردوائیوں کے بنڈل اٹھاکر چار کلومیٹر تک تپتے صحرا میں پیدل چل کر گوٹھ میں میڈیکل کیمپ کے لیے پہنچے۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے پچاس ہزار سے زائد متاثرہ خاندانوں میں ایک ماہ کے راشن پیک تقسیم کئے جاچکے ہیں جن میں آٹا، گھی، چاول، چینی، دالیں، بچوں کے لئے دودھ اور دیگر اشیائے خورونوش شامل تھیں۔یہ راشن پیک ہمارے رضاکاروں نے میلوں کا سفر کر کے دوردراز گوٹھوں میں جا کر خود متاثرین میں تقسیم کیے چونکہ پہلے سے علاقوں کا سروے موجود تھا اس لئے راشن کی تقسیم کے دوران کہیں بھی کوئی بد نظمی نہیں ہوئی اور باعزت طریقے سے دس کروڑ کا راشن 42 ہزار خاندانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح ایک لاکھ کے قریب خوراک کے پیکٹ بچوں میں تقسیم کئے گئے ہیں،خواتین میں چھبیس ہزار ملبوسات ،برتن سیٹ اور دیگر بنیادی ضروریات کے لئے لاکھوں روپے نقد امداد بھی تقسیم ہوئی ہے ۔خود کفالت سکیم کے تحت متاثرین میں بکریاں بھی تقسیم کی گئیں ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ تھرپارکر کے لوگوں کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ”پانی” ہے فلاح انسانیت فائونڈیشن نے پہلے کی طرح بڑے پیمانے پر متاثرہ علاقوں میں کنوئوں کی کھدائی کاکام شروع کر دیا ہے ہم یہا ں 2015ء کے آخر تک100 1کنوئیں کھودیں گے 850 کنوؤں کاسروے کر کے تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں سے بیشتر مکمل ہو چکے ہیں ۔
سوال : تھرپارکر کے علاوہ آپ کی کیا خدمات ہیں؟ جواب : الحمد للہ فلاح انسانیت فائونڈیشن اس وقت بین الا قوامی شہرت کی حامل جماعت بن چکی ہے۔اس کی عمومی خدمات کو چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں ہے۔اگر طبی سہولتوں کی بات کریں تو صرف2014 ء میں چودہ لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا،دو کروڑ83لاکھ کی ادویات تقسیم کی گئیں،گذشتہ سال کے سیلاب میں 25ہزار افراد کو کشتیوں کے ذریعے نکالا گیا۔یہ وہ لوگ تھے جو جان بچانے کے لئے درختوں پہ چڑھے ہوئے تھے۔بلوچستان میں فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ایسا مثالی کام کیا کہ اس کے نتیجہ میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔بلوچستان کے وہ علاقے جہاں کبھی پاکستان کی بات کرنا ،پاکستان کا جھنڈا لہرانا ممکن نہ تھاآ ج وہاں جگہ جگہ پانی کے کنوئوں پر ”فلاح انسانیت فائونڈیشن پاکستان” لکھا ہوا ہے۔ میں نے ایک بلوچی سے ازراہ مذاق کہا کنویں پر ”پاکستان” لکھا ہے کیا اسے بھی توڑو گے ۔۔۔؟کہنے لگا پانی تو ہماری زندگی ہے میں نے کہا پاکستان ہماری زندگی ہے اس لئے کہ یہ لا الہ الااللہ کا پاکستان ہے۔ پھر میں نے اسے کہا پنجاب کے لوگ تمہارے دشمن نہیں ہیں۔یہ پنجاب کے لوگ ہی ہیں جو محض انسانی ہمدردی کے ناطے تمہارے لئے یہاں کنویں اور ہینڈ پمپ لگوا رہے ہیں۔
Medical devices regulation
سوال : اس کے علاوہ آ پ کن کن شعبہ جات میں کام کر رہے ہیں؟ جواب : ہمارا بنیادی شعبہ ہیلتھ سروسز ہیںمثلاً ہسپتال ،ڈسپنسریز، ایمبولینس سروس،موبائل کیمپنگ،ویکسی نیشن پروگرام،ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام،سیو ویژن ۔دوسرے نمبر پر ہمارا ایجو کیشن پروگرام ہے۔یعنی پاکستان میں تعلیم کو عام کیا جائے۔اس لئے کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ہمارا تیسرا پراجیکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ پروگرام ہے۔ 2014ء میں پاکستان کے مختلف شہروں میں آگ لگنے کے 3000 بڑے واقعا ت ہوئے ہیںلیکن آگ بجھانے والے کتنے لوگ نہ ہونے کے برابرہیں ۔روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات ہوتے رہتے ہیںحادثات کے وقت لوگ کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں مگر زخمیوں کو بچانے کے لئے آگے کوئی نہیں بڑھتا یہ اس لئے کہ ایسے واقعات میں ہماری قوم کی ٹریننگ نہیں ہے ۔ ہم الحمد للہ ایک لاکھ نوجوانوں کو ریسکیو کی ٹریننگ کروارہے ہیں۔سیلابوںمیں کام کرنے کے لئے ہر پچاس کلو میٹر کے بعدواٹر ریسکیو سنٹر بنا رہے ہیں۔بیو گان کے لئے وظائف اور یتیم بچوںکے لئے تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔
سوال : پاکستانی قوم سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟ جواب : پاکستان الحمد للہ بہت خیر کا ملک ہے۔یہاں اگرچہ اکثریت غریبوں کی ہے لیکن ان کے دل بہت بڑے ہیں۔ہم نے 2005 ء کے زلزلے میں اس قوم کی دریا دلی دیکھی تھی کہ جب متاثرہ علا قوں میں ٹرک لے جانے ،کھڑے کرنے اور سامان اتارنے کی جگہ نہ رہی تھی۔بچوں کے جذبے بھی عروج پر تھے۔اس کے بعد جتنے بھی سیلاب آئے، کروڑں لوگ بے گھر ہوئے تب بھی ہماری قوم نے تعاون، محبت اور ہمدردی کی نئی مثالیں قائم کیں۔الغرض پاکستانی قوم بہت سخی اور دریادل قوم ہے۔ہم اپنی قوم سے پہلے بھی بہت پر اُمید تھے اور اب بھی پرُ اُمیدہیں۔ہم بیرون ملک کسی سے مدد نہیں لیتے۔اللہ تعالی کے بعد پاکستانی قوم ہی ہماری مددگار ہے۔
سوال : فلاح انسانیت فائونڈیشن کی خدمات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں؟ جواب : جی بالکل،فلاح انسانیت فائونڈیشن کی ملک بھر میں ہونے والے امدادی،ریلیف و ریسکیو کے کام کی تمامتر تفصیلات،تصاویر ،ویڈیوز انٹرنیت پرموجود ہیںاور فلاح انسانیت فائونڈیشن کی آفیشیل ویب سائیٹfif.org.pkپر دیکھی جا سکتی ہیں۔