تحریر : علی عمران شاہین آنگ سان سوچی، دنیا میں مسلمانوں پر بدترین مظالم ڈھانے والے ملک برما( میانمار )کی سربراہ مملکت اور ملک میں پہلی بار سٹیٹ کونسلر کا عہدہ سنبھالنے والی شخصیت ہے۔ 15جون 1945ء کو دارالحکومت رنگون میں پیدا ہونے والی سوچی جدید میانمار کے بابائے قوم کہلانے والے آنگ سان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیںجو ملک کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بھی مقرر ہوئیں۔سوچی نے ابتدائی تعلیم دہلی اور اعلیٰ تعلیم آکسفورڈ لندن سے حاصل کی۔سوچی نے 3سال تک اقوام متحدہ میں بھی ملک کی نمائندگی کی۔سوچی نے 1990ء کے انتخابات سے پہلے بننے والی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سیکرٹری شپ بھی سنبھالی جس نے انتخابات میں81%ووٹ حاصل کئے تو فوج نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ پھر یوں آنگ سان سوچی نے زندگی کے اگلے 21 برس میں سے لگ بھگ 15سال نظر بندی میں گزارے۔اس دوران میں جب بھی اسے رہائی ملتی تو وہ سیاسی تحریک چلاتی اور پھر نظر بندی کا سامنا کرتی۔اسی عرصے میں اس پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ بال بال بچ نکلی تھی اور پھر یوں وہ دنیا کی معروف ترین سیاسی رہنما بن کر ابھری۔اسی وجہ سے اسے امن کے نوبل انعام سے نواز ا گیا۔ 2015ء کے انتخابات میں سوچی کی پارٹی نے ریکارڈ 86%ووٹ لے کر اقتدار سنبھالا تو میانمار ہی نہیں ،دنیا بھر کے لوگوںاورعام مسلمانوں کا خیال تھا کہ سوچی نے چونکہ خود بھی ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے اس لئے وہ برمی مسلمانو ں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر کے انہیں رکوانے کی کوئی سبیل نکالے گی لیکن… وہی ہوا جس کا حقیقی اندیشہ تھا کہ سوچی نے اسلام اور روہنگیا مسلمانوں کی دشمنی میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ایک عالمی نشریاتی ادارے کو اپنے تازہ ترین انٹرویو کے دوران آنگ سان سوچی نے کہا ‘مجھے نہیں لگتا کہ میانمار میں مسلمان اقلیت کا نسل کی بنیاد پر قتل عام ہو رہا ہے اور جو ہورہا ہے، اس حوالے سے نسلی صفائی جیسی اصطلاح کا استعمال بہت سخت ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہاں بہت دشمنی ہے اور مسلمان ہی مسلمان کو مار رہے ہیں، یہ صرف کسی ایک برادری کو ختم کرنے کی بات نہیں، لوگ تقسیم ہوئے ہیں اور ہم یہاں تقسیم ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’ سوچی نے یہ الفاظ ان لوگوں کے بارے میں ادا کئے جنہیں اقوام متحدہ جیسے مسلم کش ادارے بھی روئے زمین کی مظلوم ترین مخلوق تسلیم کر چکے ہیں۔ برما کے روہنگیا مسلمان اسی ملک کے باسی ہیں جو تجارت کی خاطر ایک ہزار برس قبل یہاں آباد ہوئے۔ اس وقت ان کی آبادی 13 لاکھ کے قریب رہ گئی ہے جو 2012ء میں 35 لاکھ تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی سامراج نے برما پہ قبضہ کر لیا تھا، اس وقت روہنگیا مسلمانوں نے برطانوی اتحادی فو ج کا ساتھ دیا تھا اورحکومت بر طانیہ نے برما کو آزادی دیتے وقت روہنگیا مسلمانوں کو نمایا ں قومیت کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد جب اس سارے خطے کو برطانوی استعمار سے نجات ملی تو برما کی اکثریتی بودھ مت آبادی کے پیروکا ر آزاد ہوتے ہی روہنگیا مسلمانوں کے دشمن ہو گئے۔ 1982ء میں جبر کی انتہاء ہو گئی جب روہنگیا مسلمانوں کو برما (میانمار) کی شہریت سے محروم کر کے انہیں غیر ملکی تارکین وطن قرار دیا گیا۔
جون اور اکتوبر 2012ء میں روہنگیا مسلمانوں پر بڑے پیمانے پر حملے کرائے گئے۔ انکی عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، انکے گھر اور کاروباری مراکز جلا دیئے گئے، دس ہزار سے زائد قتل کئے گئے۔جو زندہ بچے وہ کسمپرسی کے حالات میں کیمپوں میں منتقل کیے گئے جہاں انکی حالت جانوروں سے بد تر ہے۔ ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان ٹوٹی پھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر بنگلہ دیش کی جانب روانہ ہوئے۔ طوفانی موجوں نے ان میں سے بیشتر کو لقمہ اجل بنا ڈالا۔بدھ مت کے پیروکاروں کو، جو عام طور پر امن پسند قرار دئیے جاتے ہیں، یہ خدشہ لاحق تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر وہ اپنے ہی ملک میں اقلیت بن جائیں گے لہٰذا میا نمار کے بدھ مت ہاتھ دھو کر مسلمانوں کے پیچھے پڑگئے۔ یقین نہیں آتا کہ دور جدید میں کسی بھی ملک میں ایک قومیت کے ساتھ اسقدر جبروتشدد کیا جائے اور انہیں شہریت سمیت تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے۔دوسرے مسلمان ملکوں کی سنگدلی دیکھئے کہ8000سے زائد روہنگیا مسلمانوں پر مشتمل مہاجرین کشتیوں پہ سوار ہو کر سمندر کی تیز موجوں کے رحم و کرم پہ خوراک اور پینے کے پانی کے بغیر تھپیڑے کھاتے مرتے رہے لیکن کوئی ان کو پناہ دینے پر تیار نہ ہوا۔
چند ہفتے پہلے بی بی سی تک نے بھارت اور مقبوضہ جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے بارے ایک رپورٹ میں ان کی زبانی کہانی کچھ یوں بیان کی۔’ہمارے بھا ئی، بہن، رشتے دار برما میں ہیں۔ جب ہم بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہا ں حالت بہت بری ہے ہمارے لیے دعا کرنا۔ ہم یہاں آگئے لیکن یہاں بھی زندگی بہت مشکل ہے۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہیں مصیبت آجاتی ہے۔ ہم روہنگیا لوگوں کو مار کر قبرستان میں ہی دفن کر دیجئے۔’یہ کہتے ہوئے 23 برس کی انبیا خاتون کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔انبیا ایک روہنگیا پناہ گزیں ہیں۔ وہ جموں کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں رہ رہی ہیں۔ جموں میں پانچ ہزار سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں نے کئی برس سے پناہ لے رکھی ہے۔ یہ پناہ گزیں شہر کے کئی علاقوں میں چھوٹی چھوٹی جھگی بستیوں میں مقیم ہیں۔ جنہیں اب یہاں کئی ماہ سے مار بھاگنے کی باتیں ہو رہی ہیں اور بی جے پی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ہر صور ت یہاں سے نکلنا ہو گا۔روہنگیا برادری کے ایک بزرگ دل محمد نے بتایا کہ انھوں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں انھیں مدد مل سکتی ہے۔’ہم جب 2012ء میں یہاں آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بھارت کی سبھی ریاستوں میں مسلمان آباد ہیں۔بھارت میں رہنے والے روہنگیا دلی، جموں، حیدرآباد، ہریانہ اور اتر پریش میں چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں رہ رہے ہیں۔
گزر بسر مزدوری کر کے ہو رہی ہے۔ بیشتر نے چار پانچ برس میں اردو یا ہندی بولنا سیکھ لیا ہے۔ پناہ گزینوں میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ علی حسین پانچ برس قبل راکھین صوبے سے جان بچا کر یہاں پہنچے تھے۔ ان کے پیر میں کسی تیز دھار ہتھیار کے گہرے وار کے نشان موجود ہیں۔انہیں چلنے میں دقت ہوتی ہے۔ ‘میرے بھائی میرے چاچا، بہن، ماں سب کو مار دیا۔ انھوں نے دوڑا دوڑا کر کاٹا تھا۔ مقبوضہ جموں کے ایوان تجارت نے روہنگیا کو ریاست سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا۔ ایوان تجارت کے صدر راکیش گپتا نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصے سے ان پناہ گزینوں کی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ کئی ہندو تنظیمیں روہنگیا کو جموں سے نکالنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ وہ دلی میں بھی ان کی مخالفت کر رہی ہیں۔ وہ اب ان پربالواسطہ طور پر دہشت گردی کریں گے۔ روہنگیاؤں کی پناہ گزیں بستیوں میں ایک عجیب سی بے چارگی اور بے بسی کا بسیرا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ پوری دنیا ان کی مخالف ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNHCRکے روہنگیا مسلمانوں کے لئے امدادی کام کے انچارج ناظم الدین فاروقی نے چند روز پہلے بتایا کہ ان لوگوں کی ملک میں حالت بدترین قیدی جیسی ہے جہاں دنیا کی کوئی معمولی سے معمولی سہولت بھی انہیں میسر نہیں بلکہ یہ تو ایک گائوں سے دوسرے گائوں نہیں جا سکتے ۔ شادی نہیں کر سکتے، علاج کا سوچ نہیں سکتے۔بچے پیدا کرنے سے پہلے اجازت لیتے ہیں۔جو بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں وہ مارے جاتے ہیں ،عورتیں عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں اور پھر دوسرے ملکوں میں بیچ بھی دی جاتی ہیں۔اب تو ان کے علاقے کی سب مساجد جلا دی گئی ہیں۔میانمار کی فوج کا سب سے بڑا مشغلہ انہیں نشانہ بنا بنا کر مارنا ہے۔یہاں کے حکمران ،فوج اور عوام سب اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ روہنگیا کو کسی صورت ملک میں نہیں رہنے دیا جائے گا اور اس پر انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔آنگ سان سوچی سے وابستہ امیدیں دم توڑ چکی ہیں تو اب امت میں سے ہی کسی مسیحاکا انتظار ہے جو اس نسل کو مٹنے سے پہلے بچانے کی بات ہی کر سکے۔
Ali Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین ( برائے رابطہ:0321-4646375)