تحریر : عقیل خان حال ہی میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق میانمار (برما) کے شمال مغربی علاقے میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں کے دوران 4 سو کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق میانمار کی ایک ریاست میں فوجی بیس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی کے نتیجے میں 38 ہزار روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔دوسری جانب روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں ملک سے بے دخل کرنے کے لیے قتل وغارت کی مہم شروع کی گئی ہے۔
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے میں سمندر سے 53 روہنگیا افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، یہ افراد دریائی راستے سے ہجرت کرنے والے افراد میں شامل تھے، جبکہ ہزاروں افراد اب بھی دریائے ناف کے راستے قریبی پڑوسی ملک پہنچنے کی کوششوں میں ہیں، دریائے ناف بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان سرحد کا کام کرتا ہے۔خیال رہے کہ میانمار میں مسلمانوں کو نصف صدی سے مشکلات کا سامنا ہے، 1970 سے لے کر اب تک 10 لاکھ روہنگیا مسلمان شدید مشکلات اٹھانے کے بعد دنیا کے کئی ممالک ہجرت کر چکے ہیں۔
میں آج اپناقلم ان مظلوم مسلمانوں کے نام کررہا ہوں جن کو”میانمار”،” برما” اور” روہنگیا ” کے مسلمان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ برما جنوبی اشیا میں واقع ہے جو 14 صوبوں پر مشتمل ہیں اور کل آبادی 7 کروڑ سے زائد ہے جس میں بدھ مذہب کی اکثریت ہیں۔” اراکان ” برما کا بڑا صوبہ ہیں جو بنگلہ دیش کے شہر چٹاگام سے متصل ہے اور جس میں مسلم اکثریت ہیں۔1784 سے پہلے اراکان ایک مکمل آزاد اسلامی ریاست تھی۔1784 میں برما کے راجہ نے اراکان پر حملہ کیا اور اراکان پر جبراً قابض ہو گیا۔1886 سے 1948 تک برما پر انگلستان کی حکومت رہی۔1948میں مسلمانوں نے بدھ مذہب والوں کے ساتھ ملکر انگریزوں سے آزادی حاصل کی۔1948میں برما کی آزادی کے وقت “اراکان” کے مسلمانوں نے مشرقی پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی لیکن انگریز حکمران اور بدھ مذہب اڑے آئی لہذا برمی مسلمانوں کی خواہش پوری نا ہوسکی۔
وہ بدھ مذہب جن کا عقیدہ ہے کے زمین پر چلنے میں بھی اس حد تک احتیاط کی جائے کے پاؤں کے نیچے کوئی کیڑا نا کچلا جائے۔ ان کے ہاتھوں ایک ماہ کے مختصر عرصے میں 22000 مسلمان قتل کئے گئے اور بہت سی خواتین غائب کردی گئی۔برما کے مسلمان ایک صوبے سے دوسرے صوبے جانا تو درکنا ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک جانے پر بھی انکو قتل کیا جاتا ہے۔برمی مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند اور سرکاری نوکری کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ برمی مسلمان اپنی مرضی سے شادی بھی نہیں کر سکتے !!برما میں آج مسلمانوں کو اس طرح قتل کیا جاتا ہے جیسے یہ کرہ ارض پر انسانیت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہو۔آج یورپ و امریکا میں جانوروں کی تحفظ کی انجمنیں تو موجود ہیں لیکن برما کے مسلمانوں کا قتل عام ان کو نظر نہیں آرہا۔
مسلمان برادری خاموشی کے ساتھ صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ کہاں گئے وہ تنظیمیں جو اسلام کے لیے اپنا سب قربان کرنے کو تیار ہیں۔ کہاں سو گئے وہ ہمارے مذہبی جماعتوں کے لیڈر جو اسلام کا علم اٹھائے ایک دوسرے کو کافرہونے کا طعنہ تو دے سکتے ہیں مگر اپنے رنگونی بھائیوں کی مدد کے لیے آواز بلند نہیں کرسکتے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو پاکستان کو تو دھمکی لگا رہا ہے مگر اس کو برما نظر نہیں آرہا۔عراق، کویت اور افغانستان میں تو اپنی فوج بھیج سکتا ہے مگر برما کے مسلمان اس کو کیوں نظر نہیں آرہے؟ انسانیت کا درس دینا والا امریکہ آج اس خالص انسانی مسئلے پر خاموش کیوں؟ کیوں کہ وہ تو مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پوری دنیا سے مسلمانوں کوہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے۔ظاہر ہے وہ کیوں میانمار کے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرے گا؟
افسوس توا س بات کا ہے کہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے حکمراں بھی خاموش ہیں۔مسلم عوام تو میانمار کے مسلمانوں کے درد کو دل میں محسوس کرتے ہیں لیکن مسلم حکمرانوں کے کانوں پر جوںتک نہیں رینگ رہی۔اللہ جانتا ہے کہ کب مسلم ممالک کے حکمران اپنے اور ہمارے بارے میں سوچیں گے؟ وہ وقت کب آئے گا جب تمام مسلم ممالک ایک ہوں۔ کب عالم اسلام کی اپنی ایک فوج ہوگی جو دنیا بھر میں جہاں مسلمانوں پر ظلم ہوگا اور وہ پہنچے گی۔ کیا کبھی وہ وقت آئے گا جس طرح امریکہ ہر ملک میں دخل اندازی( بالخصوص مسلم ممالک میں )اپنا فرض سمجھتا ہے اسی طرح امت مسلمہ کی افواج اپنے مظلوم مسلمانوں کی حمایت کے لیے پہنچے گی؟
کہاں گیا مسلمانون کا وہ جذبہ اخوات جو خود پانی کے ہاتھوں جان بلب ہوتے تھے لیکن دوسرے زخمی کے کراہ سن کر ساقی کو ان کی طرف بھیج دیتے تھے ۔میرا تو برما کے مسلمانوںکو یہ مشورہ ہے کہ وہ جیسے آجکل کے حالات چل رہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اللہ سے امید رکھیں کہ اللہ ان کی غیب سے مدد فرمائے۔ آمین