تحریر: عارف رمضان جتوئی گزشتہ کئی ہفتوں سے برما کے حالات تشویش ناک ہیں۔ وہاں پر بدھسٹوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کو سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ دل میں ایک عجیب سی بے چینی اور خوف طاری ہوجاتا ہے۔ آنکھوں میں سرخ رنگ کے دھاریں، کٹے گلے، پھٹے جسم، رستا خون نظر آنے لگتا ہے۔ مگر پھر اچانک ایک سوال ذہین کی سکرین پر گردش کرنے لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ……….. ؟ ان کا کیا قصور تھا………؟ ہاں! اگر قصور تھا تو پھر بھی ایسا سلوک؟………. مگر یہ کیا ان کے ہاتھوں میں تو خالی چھڑی تک نہیں……….. اسلحہ کو تو انہوںنے قریب سے کبھی دیکھا تک نہیں تھا………… پھر ان کا کیا قصور ہوگا………..؟ شاید وہ شدت پسند ہوں گے…………….؟ مگر بغیر اسلحہ، گولا بارود کے آخر وہ یہ سب کیسے کر سکتے تھے…………؟
ایک ایسی قوم کو جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کا مذہب ایک انسان کو کجا چیونٹی تک کو خراش تک پہنچانے کو جرم عظیم سمجھتا ہے بھلا ان کے ساتھ وہ کیوں زیادتی کر رہے تھے………؟ کیا ! ان کا قصور تھا …………. ۔ مگر کیا قصور تھا ……… ؟ ان کا قصور وہیں تھا جو پوری دنیا کے دہشت گردوں کا قصور ہے۔ ان کا بھی وہیں قصور تھا ، ان کے پاس جدید طیارے نہیں تھے، جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی، ڈیزی کٹر بم نہیں تھے۔ گولا بارود نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ عالمی دہشت گرد تھے۔ ان کو دہشت گرد ہونے کے لئے کسی اسلحہ، تیر، تلوار کی بھلا کیا ضرورت تھی ان کے لئے ان کا مسلمان ہونا ہی کافی تھا۔ وہ خود کو دنیا کے خدائوں سے مبرا گردانتے تھے اور ایک رب تعالیٰ کے حضور اپنے سر کو جھکانا پسند کرتے تھے۔ یہیں قصور افغانستان والوں کا تھا اور یہیں جرم کشمیریوں اور فلسطینیوں کا ہے۔ کبھی سننے کو ملتا تھا کہ ایک انسانیت کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔.
مگر یہاں پر تو کوئی ایک انسان قتل ہوا ہی نہیں یہاں پر تو سارے مسلمان قتل ہوئے۔ یہود و ہنود اور عیسائیت میں شاید انسانیت کا قتل جرم ہے مسلمان کا قتل باعث ثواب۔ یہیں وجہ تھی کہ جب مسلمانوں کی ایک معصوم کلی ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر الزام لگایا گیا کہ اس نے کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اس کو اس جرم کی ایسی گھنائونی سزا سنائی گئی کہ جو دنیا کے لیے باعث عبرت بن گئی۔ امن کا پرچار کرنے والا، سلامتی کا ضامن اور رب کائنات کا پسندیدہ ترین مذہب اسلام کیا کبھی دہشت گردی کا درس دے سکتا ہے؟ کیا وہ کسی بے قصور کو بغیر کسی جرم کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے کا حکم دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ نے تو آپس میں بھائی چارہ، پیار و محبت سے رہنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو باوجود اپنی جلاوطنی کے، کفار مکہ کی ناقابل برداشت ظلم و زیادتیوں کے ان کو معاف کردیا تھا۔ فتح مکہ اتنی بڑی جنگ تھی کہ جس کا تصور کئی نسلوں کے مٹ جانا کیا جاسکتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خون کا قطرہ تک نہ بہا کر اسلام کو امن و سلامتی کا مذہب ہونا کا ثبوت دیا۔
Burma Muslim
برما کے مسلمانوں پر روا رکھے گئے سلوک ، ظلم و زیادتیوں، نسل کشی، قتل و غارت گری کا نا ختم ہونے والا سلسلہ اور پھر عالمی طاقتوں مگر غیر مسلموں کی خاموشی اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ”کفر ایک ہی ملت ہوتا ہے”وہ کہیں کے بھی ہوں ان کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں یکساں ہوجاتا ہے۔ مگر یہاں پر کچھ اپنوں کی عنایتیں بھی ہوئیں کہ ”جن پتوں پے بھروسہ تھا ، وہیں ہوا دینے لگے” کے مصداق ٹھہرے، بجائے اپنے برمی مسلمانوں کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے ، ان کی ہاں میں ہاں ملاتے، خانہ جنگی پیدا کرنے اور آپس میں ایک دوسرے کو لڑانے میں مصروف ہوگئے۔ برما کے مسلمانوں کی امیدیں جن سے تھیں انہوں نے ایک لمحہ کے لئے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔
دو برس قبل جب برما کے حالات کشیدہ ہوئے تھے تو امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ راکھین ریاست کے رہائشی مسلمانوں کو قانونی ، معاشی ، تعلیمی اور دیگر سماجی شعبوں میں شدید ترین امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں یہ افسوسناک انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ریاست راکھین (اراکان)کے مسلم باشندوں کو صرف عارضی رہائشی سرٹیفیکیٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ روہنگیا مسلم طلبہ کو اگرچہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور امتحانات دینے کی اجازت ہے لیکن انہیں ڈپلومے اور ڈگریز جاری نہیں کی جاتیں۔ وہ کسی سرکاری ملازمت کیلئے درخواست دینے کے بھی اہل نہیں۔ 2012 ء کے آواخر میں وہاں کا سروے کر کے آنے والی ایک ٹیم نے بتایا کہ برما سے ہجرت کرکے آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی کشتیوں پر بنگلہ دیش کی فوج کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ سے سینکڑوں افراد ڈوب کر شہید ہوئے۔
جن کی لاشیں کئی روز تک مچھیروں کے جالوں میں پھنستی رہیں۔ اس بات کا انکشاف نور الزمان (مہاجر)کیا انہوں نے اپنی ہجرت کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ بڈھسٹوں سے جان بچا کر آنے والے مسلمانوں کی کشتیوں پر بنگلہ دیشی افواج کی جانب سے فائرنگ کی جاتی، جس سے کشتیوں میں سوراخ ہوگئے۔ کشتیاں ڈوبنے لگیں، اس میں سوار روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد ڈوب کر شہید ہوگئی۔ مقامی مچھیروں نے جب دریائے ناف میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے جال لگایا تو ان کے جال میں کئی لاشیں پھنس گئیں جنھیں بعد ازاں دفنا دیا گیا۔ کیا اب ان برما کے مسلمانوں کے لئے کوئی اسلامی ملک آواز بلند کرے گا۔ اگر یمن کی صورتحال میں پوری دنیا کو تکلیف ہو سکتی ہے تو یقینا برما کے مسلمانوں کے لئے بھی کوئی پاکستانی، ایرانی، عرب ملک، یا سمندر پار ملک انسانی حقوق کی تنظیمیں کوئی تو کچھ کرے۔ خدارا کوئی تو ان کا پرسان حال ہو۔