تحریر : منظور احمد فریدی اللہ جل شانہ کی لامحدود حمد وثناء ذات کبریا جناب محمد مصطفی کریمۖ پر درودوسلام کے ان گنت نذرانے پیش کرتے ہوئے راقم نے سانحہ بہاولپور پر چند سطور مرتب کی ہیں قارئین کرام کی آراء اور دعائوں کی درخواست کے ساتھ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کا تاج دے کر اپنے نائب ہونے کا مژدہ سنا کر دنیا میں بھیجا اور ساتھ نفس امارہ لگا کر اس کے شر سے بچنے کی تلقین بھی فرمائی وطن عزیز مسلسل حادثات کی زد میں ہے اس بھولی قوم پر عذاب الہی اجتماعی طور پر تو نہیں آتا مگر من حیث القوم طرح طرح کے حادثات عذاب سے کم نہیں آج جب ملک بھر میں لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
کس کو خبر تھی کہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد یک دم لقمہ اجل بن جائیں گے کس ماں کی خواہش ہوگی کہ اس کا خوشیوں بھرا گھر ماتم کدہ بنے مگر کاتب تقدیر نے کسی تدبیر کو اپنے سامنے کب کامیاب ہونے دیا ہے ابھی قوم سانحہ کوئٹہ پارا چنار کے صدمہ سے نکل نہ پائی تھی کہ آج ایک ایسا المناک حادثہ ہوگیا جس پر پوری قوم اشکبار ہے سانحہ بہاولپور کیا صرف قدرتی حادثہ ہے یا ہماری غفلت و بے پرواہی کا نتیجہ ہے حادثہ تو ہوگیا جن لوگوں کو موت نے گھیر کر اس جگہ دکھیل دیا وہ دار آخرت میں چلے گئے مگر ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس حادثہ کے بنیادی اسباب کیا تھے محترم قارئین اتنی جانوں کے ضیاع پر محض افسوس کرلینا تعزیتی یا مذمتی بیان جاری کردینا ہی کافی نہیں اسکے ذمہ داروں کو تلاش کرنا ہو گا۔
پیٹرولیم مصنوعات خطرناک کیمیکل کی بار برداری کے لیے جو ٹینک تیار ہوتے ہیں انہیں پاس کرنے کے لیے باقاعدہ ایک محکمہ ہے جو ٹینک اتنی بھاری مقدار میں پیٹرول لے کر قومی شاہراء پر چل رہا تھا کیا وہ اس قابل تھا کہ اس میں اتنا پیٹرول لوڈ کیا جاسکے ۔ڈرائیور کو حادثہ کا علم ہونے کے باوجود ٹینک کو کسی آبادی سے دور منتقل کرنے کا بھی منصوبہ بن سکتا تھا سب سے اہم بات جو مجھ سے کم فہم بندے کو بھی ہضم نہیں ہورہی وہ یہ ہے کہ ٹینک کے الٹ جانے کے بعد اتنی بھاری مقدار میں آتش گیر مادہ کی موجودگی میں علاقہ کو سیل کرکے داخلہ ممنوع کیا جا سکتا تھا۔
ریسکیو آفیسر کے بیان کے مطابق ،،،ہم نے لوگوں کو حادثہ سے خبردار کیا تیل اکٹھا کرنے والوں نے ہماری ایک نہ سنی ،،،یہ قوم اتنی دانا کب تھی اور سدھری کب ہے کہ ریسکیو والوں کے روکنے پر رک جاتی اور جس علاقہ میں یہ حادثہ ہوا وہ سرائیکی وسیب ہے جہاں آج بھی وڈیرہ شاہی رائج ہے اگر ریسکیو افسران عوام کو خود منع کرنے کے بجائے علاقہ کو سیل کردیتے اور کسی مقامی وڈیرہ کو نگران بنادیا جاتا تو عوام اس جگہ کے قریب بھی نہ جاتی سب سے آخری بات اس واقعہ کو قدرتی حادثہ سمجھ کر ٹھپ کر دینے کے بجائے اسکی ہر پہلو سے تحقیقات ہونی چاہییں جس میں دہشت گردی اور مکار دشمن کی گہری چال کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
ملکی صورتحال کے تناظر میں سانحہ کوئٹہ میں ہلاکتوں کی تعداد اور اس سانحہ میں ہلاکتوں کی درست تعداد کو سامنے رکھ کر مکمل تحقیق کی ضرورت ہے آبادی میں ٹینک الٹنے کی خبر کیسے پہنچی اور لوگ گھروں سے برتن اٹھا کر تیل اکٹھا کرنے اتنے تھوڑے وقت میں اتنی ذیادہ تعداد میں کیسے پہنچ گئے آخر میں دعا ہے اللہ کریم سے کہ وہ اس المناک حادثہ کا شکار ہوکر جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائے ماہ صیام کے صدقہ میں انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے اور زخمیوں کو صحت کاملہ سے نوازے اور ایسے تمام گھرانوں کو صبر اور اس پر اجر عطا فرمائے آمین والسلام۔