تحریر : خان فہد خان پاکستان سمیت دنیا بھر میںبڑی ماحولیاتی تبدیلی سے درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہوا۔جس کے نتیجہ میںگرمی کی شدت کے کئی پُرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔گزشتہ ماہ اس بے رحم گرمی نے بھارتی علاقوںمیںڈیرے ڈالے رکھے جس سے سیکڑوں افراد موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اس کے بعد اس قاتل گرمی نے پاکستان کے جنوبی علاقوںبلخصوص کراچی کو آن گھیرا۔گرمی کی اس شدید لہر نے عوام کا جینا مشکل کردیا۔کراچی میں قیامت خیز گرمی کے نتیجہ میںگزشتہ چار روز میں 1000کے قریب انسان لقمہ اجل بن گئے ۔شہر بھر میں اچانک اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں نا اہل حکومت کی منظر کشی کر رہی ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سبب صرف گرمی ہی نہیںبنی بلکہ پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ بھی ہے جس نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے اس آگ کو خوب بھڑکایا۔ جس سے جانوں کا ضیاع میں اضافہ ہوا۔
ان ہلاکتوں پر متاثرہ خاندانوں سمیت پورے پاکستانی عوام میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ان ہلا کتو ں کا ذمہ کون ہے ؟ اگران قیمتی جانوں کے ضیاع کے ذمے داروں کی بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اس ساری صورت حال کے ذمے دار حکمرانوں سمیت ہم سب ہیں۔ ساری دنیا میں ماحول کی تبدیلی کی بڑی لہر داخل ہو چکی ہے۔جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔اس بڑھتے درجہ حرات کا ذمہ دار انسان خود ہے ۔جس نے اللہ کے نایاب تحفہ کو خود نقصان پہنچایا۔قدرت کا قانون ہے کہ اگر آپ ماحول خراب کر رہیں تو قدرت آپ کو کبھی معاف نہیں کرتی۔
اس لیے آج ہم کو اس کاخمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے جدید دور میں جس قدر تیل، گیس، اور کوئلہ کا استعمال ہو رہا ہے اس سے کرہ ارض پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں دنیا بھرمیں گرمی کی شدت اور دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے جو ایک تشویش ناک صورت حال ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت سے کئی علاقے خشک سالی اورکئی سیلاب کا منہ دیکھیں گے ۔اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ کئی قوموں کے زوال کی بڑی وجہ گرمی اور خشک سالی تھی۔بد قسمتی سے آج پاکستان میں بھی خشک سالی کے ڈیرے ہیں۔جس سے تھر جیسے علاقوںاور گرمی سے کراچی میں اموات ہوئی ہیںلیکن اقتدار کے نشے میں چُور حکمرانوں کو ئی اثر نہیں۔
Heat Wave
گرمی تو خیر قدرت کے کنٹرول میں ہے مگر عوام کو پانی ،بجلی کی فراہمی اور صحت کی سہولیات مہیا کرنا کس کا کام ہے؟سائیں سرکار ہوش کرو اقتدار کے کومہ سے نکلوں عوام پاگل نہیں۔اگر گھروں میں بجلی اور پانی جیسی ضروریات زندگی مو جود ہوتی تو اموات اتنی ریادہ نہ ہوتی ۔اموات زیادہ تر ہسپتالوں میں ہوئی ہیںاگرآپ نے ذرابھر بھی شہر کے ہسپتالوں پر توجہ دی ہوتی تو تواتنی بڑی تعداد میں ہم لاشیں اُٹھائے نہ پھرتے۔ شدید گرمی سے ہرطرح کے وسائل نا کافی نظر آئے۔ ہسپتالوں میں بھی پانی ،بجلی ،ادویات اور عملے کی کمی سے اموات زیادہ ہوئی۔ان مرنے والوںکی میتوں کو گھروں تک لے جانے کیلئے گاڑیاں تک میسر نہیں،میتوں کو دفنانے کیلئے قبرستانوں میںگورکن نہیں
اگر ہے تو پھر قبر کیلئے جگہ نہیں، حکومتی ایک بھی سرد خانہ نہیں اور نجی سرد خانوں میں لاشیں رکھنے کی جگہ نہیں،گھروں میں رکھیں تو برف نہیں ہر جانب حکومت کی نا اہلی کی کار ستانیاںنظر آتی ہیں۔اس سارے واقعہ نے حکومتی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی ہے۔ مگراب تک کوئی بھی ادارہ یا حکومت اپنی نااہلی ماننے کو تیا ر نہیں بلکہ ہزار کے قریب لاشوں کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ اس اس سارے واقعہ بعد بھی حکومت سنجیدہ اور فکر مندنظر نہیں آرہی صوبائی حکومت وفاق پر اور وفاقی حکومت صوبے اور کے الیکٹر ک پر ذمے داری عائد کر رہی ہے۔ ایک دوسر ے پر الزام تراشی کر کے یہ صاحب اقتدار سمجھتے ہیں کہ اب اس نا اہلی کے کارنامے سے یہ بری ذمہ ہو گئے ہیں۔
جناب ارباب اختیار جمہوری نظام میں عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری حکومت وقت کی ہوتی ہے۔عوام کے جان ومال تحفظ آپ کی پہلی ترجیحات میں شامل ہو ناچاہیے مگر آپ ملک و قوم کی خدمت سے قاصرہیں۔ان مرتے ہوئے لوگوں کے پیسوں پر عیاشیاں کرنے والے نا اہل حکمرانوں ایک دن اس اقتدار کا حساب دینا ہوگا۔یاد رکھو تمہاری نا اہلی سے مرنے والے اور خدا تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ حکمرانوں اس عوام نے ہی تمہیں اقتدار کے اس تحت پر بیٹھایا ہے اورآج تم ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہو۔ خدارا اپنی ذمے داری کا احساس کرو۔اس عوام کو لاوارث نہ چھوڑوںان کی پُر سکون اور پُر امن زندگی کیلئے اقدامات اُٹھاو تاکہ آئندہ ایسا وقت نہ دیکھنا پڑے۔