کیا اب کاروباری مفادات نے ٢٥٩ مزدوروں کی شہادت کو ضائع کر دیا؟

Zulfiqar Mirza

Zulfiqar Mirza

تحریر: میرافسر امان
ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ڈاکٹر ذولفقار مرزا صاحب ،سابق وزیر داخلہ حکومت سندھ ، سابق صدر سندھ پیپلز پارٹی، رکن سنیٹرل کمیٹی پیپلز پارٹی نے انکشافات کیے ہیں کہ سابق صدر زرداری صاحب نے پراپرٹی تائکون ریاض ملک صاحب سے کئی کاروباری پر جیکٹس میں شرکت داری کر لی ہے۔ دوست تو دونوں حضرات پہلے سے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ریاض ملک صاحب نے لاہور میں زرداری صاحب کو اربوں سے روپوں سے بنا بلٹ پروف محل تحفہ میں دے چکے ہیں۔ جس میں کچھ عرصہ قبل بلاول زرداری بھٹو چیئرمین پیپلز پارٹی کے بغیر پیپلز پارٹی کا گرما گرم اجتماع بھی ہو چکا ہے۔ اس گفٹ کے بعد ذرائع اندازے لگا رہے تھے کہ پراپرٹی ٹائکوں اب سندھ میں اپنا پراپرٹی کا کاروبار شروع کر نے والے ہیں۔ سندھ میں صرف زرداری صاحب ہی کھپے کا سماں ہے۔ سندھ میں پیپلز پارسٹی کی ہمیشہ حکومت رہتی ہے اس لیے وہاں سے کوڑیوں کے حساب سے زمینیں مل سکتیں ہیں اس لیے یہ عنایت کی گئی ہے۔ اس دوستی کے بعد لوگوں نے نوٹ کیا کہ ملک صاحب نے سندھ میں کئی پروجیکٹز شروع کر دیے ہیں۔

کھربوں روپے ایڈوانس کی شکل میں لوگوں سے بٹور لیے ہیں۔ اب تو گھر کے بیدی ڈاکٹر ذولفقار مرزا صاحب نے بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کھپے کا مقصد پیسے کمانا ہے۔ کراچی میں بلدیہ کے سانحہ پرجب مزدوروں کو انصاف ملنے کا وقت آیا تو اس موقعے پر پراپرٹی تائکون نے بیچ میں پڑھ کر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی رحمان ملک کی سفارت کاری سے صلح کرا دی۔ریاض ملک صاحب نے نہ صرف زرداری کو تحفہ دے کر اپنا کاروباری دوست بنا لیا تھا، بلکہ زرداری صاحب نے ریاض ملک کو مشورہ دیا کہ وہ الطاف صاحب کو بھی دوست بنا لیں۔ الطاف صاحب کے نام سے حیدر آباد میں ایک عدد یونیورسٹی بناہیں۔ چناں چہ ملک صاحب نے حیدر آباد میں الطاف صاحب کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا اور ایم کیو ایم کے گورنر اور دوسری قیادت کو ساتھ ملا کر یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔ پھر الطاف صاحب نے زرداری صاحب کے مشورے کا احسان اُتارتے ہوئے ،ریاض ملک صاحب سے کہا کہ نواب شاہ میں بھی بے نظیر بھٹو صاحبہ کے نام سے بھی ایک عدد یونیورسٹی بناہیں ملک صاحب نے موقعہ پرہی نواب شاہ میں بے نظیر صاحبہ کے نام سے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عوام کو تو ضرور فائدہ گا ہو مگر اس طاقت کی تکون کے اس فیصلے سے مزدوروں کو جو انصاف ملنے کی توقع پیدا ہو گئی تھی وہ پس پشت چلی گئی۔ متحدہ حکومت میں شامل ہو کر اس کیس پر اثر انداز ہو گی۔ذرائع کے مطابق اس سے قبل زرداری صا حب کی مفاہمت کی پالیسی نے پیپلز پارٹی کو سمیٹ کر طرف سندھ تک معدود کر دیا تھا اب اس فیصلے سے پیپلز پارٹی اپنے گڑھ سندھ سے بھی ختم ہو جائے گی۔جے آئی ٹی رپورٹ میں جن عناصر کی نشان ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ صرف ان لوگوں کے نام جے حکومت نے ایگزسٹ لسٹ میں ڈال دیے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے کہا ہے کہ نئی جے آئی ٹی بنے گی اور نئے سرے سے تحقیقات کرے گی۔

259 Laborers Martyrdom

259 Laborers Martyrdom

نئے سرے سے ملزمان کا تعین کیا جائے گا۔ کیا اس سے ان ٢٥٩ شہید مزدوروں کو جو انصاف ملنے کی امید پیدا ہوئی تھی اس نے دم نہیں توڑ دیا؟ زندہ جلا دیے گئے مزدوروں کے لواحقین کے دل پر کیا گزری ہو گی۔ جب کہ پہلے نواز شریف صاحب نے فرمایا تھا کہ رپورٹ کو فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا ملی چاہیے۔ دہشت گردی کے تمام مقدمات فوجی عدالتوں میں جائیں گے جس سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ دہشت گردی اور سفاکیت کا یہ کیس بھی فوجی عدالت میں جائے گا اور مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل صاحب نے بھی مزدوروں کی د لجوئی کے لیے فرمایا تھا کہ کراچی میں امن کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

شہر قائد میں آپریشن کسی نسلی، سیاسی اور مذہبی امتیاز کے بغیر شفاف ہونا چاہییے۔پولیس کی مداخلت بند ہونی چاہیے۔پولیس کی تقریاںتبدیلیاںسیاسی بنیا دکی بجائے اپیکس کے ذریعے کی جائیں۔ گن پائوڈر چھڑک کر زندہ جلا دیے گئے ٢٥٩ بے بس مزدوروں کی جے آئی ٹی رپورٹ میں رضوان قریشی نامی شخص کا انکشاف ہے جس کو ایم کیو ایم کا کارکن کہا گیا ہے ۔ ایم کیو ایم نے کی تردید کی ہے۔رضوان قریشی کا بیان ہے کہ ٢٠ کروڑ بلدیہ فیکٹری کے مالکان سے طلب کیا گیا تھا۔ جس کی عدم ادائیگی کی بنا پر فیکٹری میں گن پائوڈر چھڑک کر فیکٹری کو جلا دیا گیا تھا۔جس میں ٢٥٩ مزدور زندہ جل گئے تھے۔ اس نے ١٢ مئی کے واقعے میں ملوث ہونے کا اقرار بھی کیا ہے۔ یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کی یہ گن پائوڈردہشت گردوں کے پاس قدر سے آ گیا۔ پہلے بھی لائٹ ہائوس کے سانحہ میں یہ گن پائوڈر چھڑک کر کئی دکانوں کو خاکستر کر دیا گیا تھا۔ وکیلوں کو بھی جلا دیا گیا تھا۔ کیا اس پر بھی اجنسیوں کو کھوج نہیں لگانا چاہیے۔ اس رپورٹ میں ایم کیو ایم کو ذمہ دار ٹھرایا گیا ہے۔ اس

پر الطاف صاحب نے فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف خوب غصہ نکالا۔ اس پر فوج کی ترجمان آئی ایس آر پی نے بیان جاری کیا یہ رپورٹ درست ہے اس پر واویلا نہ کیا جائے۔عمران خان نے کہا تھا کہ مجرموں کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ اس پر الطاف صاحب نے عمران خان صاحب کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا اورتحریک انصاف کی خواتین کے متعلق بھی نازیباالفاظ استعما ل کیے تھے۔ پھر کیا تھا ایم کیو ایم کی رابط کمیٹی نے حسب معمول پریس کانفریس منعقد کی اور عمران کے خلاف الزامات کی پوری فہرست جاری کر دی۔ پھرنہ جانے کن کے کہنے پر الطاف صاحب نے فوج، آئی ایس آئی اور شرین مزاری صاحبہ سے معافی مانگی ۔رابطہ کمیٹی کو بھی بیان بازی سے روک دیا۔ اللہ اللہ کر کے یہ ہنگامہ تو ختم ہوا۔ مگر کراچی کے مظلوم عوام نے یہ نوٹ کیا ہے کہ شاید اس دفعہ بھی زرداری صاحب نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٢٥٩ مظلو موں کے خون کے عوض ایم کیو ایم کو اس نازک وقت میں سندھ حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ اثر رسوخ استعمال کر کے اس سے سے بچ نکلے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میرافسر امان