تحریر : شاہ بانو میر قصاب کون ہے؟ درشت لہجے والا جاہل ان پڑھ بڑی بڑی مونچھوں والا قدرے عام نرم چہروں سے ہٹ کر کرخت اعضاء رکھنے والا انسان کرختگی قصاب اس کے چہرے کا خاصہ ہے کیونک کام ہی سخت ہے خون بہتا دیکھنا شہہ رگ پے چھری چلانا اور دل مضبوط رکھنا کہ زندہ جانور کو ذبح کر کے تڑپتے مچلتے اس کے جسم کو مکمل سکون سے دیکھنا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس جانور کے جسم ٹھنڈا ہوتے ہی کمال مہارت سے اس کے جسمانی اعضاء کو بڑی پھرتی سے ران پُٹھ گردن پسلیاں چانپوں دستی جیسے ناموں سے آزاد کرتے ہوئے بے رحمی سے محض گوشت کے پارچوں کے بعد بوٹیوں میں تبدیل کر دینا کہ پتہ ہی نہ چلے کہ کچھ دیر ہلے یہاں ایک جاندار مکمل وجود کے ساتھ تھا یہ ہے قصاب جو حصے بخرے کر کے بے نام و نشان بنا دیتا ہے اور اس کے بعد اپنا سامان صاف کر کے قیمت وصول کر کے روانہ ہو جانا سخت کام کی وجہ سے اس کے اندر کی نرماہٹ اور انسانیت کسی قدر ہم سے کم ہوتی ہے آج ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرہ قصاب کا کردار ادا کر رہا ہے ایک گھرٹوٹا۔
دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے سجناں وی مر جانا
کچھ تو خدا کا خوف ہونا چاہیے ہم سب گھر بار خاندان والے ہیں اور ستم بالائے ستم نام نہاد مسلمان بھی اسلام کی ڈگریاں ہمارے ہاتھوں ًمیں ہیں اور قرآن اور اسلام وہ ہے جو ہماری زبان کی نوک پر تو ہے لیکن دل کی گہرائیوں میں نہیں ہے سطح آب پر تیرنے والا یہ اسلام ہم ایسے مواقع پے خوب واضح کر کے خود بتا دیتے کہ ہم انسانیت کے اسلامی سبق سے مکمل طور سے نا آشنا ہیں کسی کا گھر ٹوٹا اور میڈیا کو ریٹنگ کا سیاپا کسی کی زندگی میں گہرا گھاؤ لگ گیا خوشیاں ختم ہو گئیں بجائے آپ اس وقت اس کے زخموں پے مرہم رکھیں آپ سیاست کا بازار گرم کر رہے ہیں۔
Imran Khan
بلاشبہ ایسے ماحول کا ذمہ کسی حد تک خود عمران خان پر آتا ہے تند و تیز جملہ بازی تضحیک اور سوشل میڈیا پر کمپیننگ لیکن خدارا اس وقت وہ جزبانتی کرب کا شکار ہے اسلام دلجوئی کا حکم دیتا ہے مسلمان کو ایک جسم کی مانند بتاتا ہے اور ایک عضو کی تکلیف سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے آج ہم مسلمان نہیں رہے صرف قصاب بن گئے۔
جن کیلئے بہت آسان ہے کسی بھی وجود کو پکڑنا کُند آلے سے کسی کی زندگی کو ذبح کرنا اور پھر اسکی ذات کے خاندان کے گھر کے اس کی عزت کے حصے بخرے کر دینا بغیر کسی تحقیق کے خدارا کچھ تو سوچیں اپنے آباء کو ان کی قربانیوں کو اسلام کو پھیلانے کیلئے کوئی تختہ دار پے چڑھا تو کسی کو جلتی ریت پے اس پاداش میں چربی پگھلا دی کہ کیوں کہتے ہو لا الہ اللہ کہیں کڑاہی میں پھینکا گیا کہیں آرے سے چیر دیا گیا ایسی قربانیاں ہم نہیں پڑھنا چاہتے کہ کہیں ہمارے اندر کا ضمیر نہ جاگ جائے کہیں نفس لوامہ پے ضرب نہ پڑے ہم اس نفس کو ایسی باتوں سے مزید طاقت دے کر صحت مند کررہے جو اسلام کیلئے زہر قاتل ہے احساس بیدار کیجئے ہمدردانہ انداز اپنائے برادرانہ سوچ کو رواج دیں دکھ میں ایک دوسرے کو دلاسہ دیں ایک دوسرے کو غم سے نجات دلانے کیلئے دعائیں کریں۔
Pakistani Politicians
یہ فرعوانہ انداز اور قصابوں کا سا طرز تخاطب اللہ کو سخت ناپسند ہے ڈریئے کہ اسکی پکڑ بڑی سخت ہے پارہ الم میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ “”وہ سرکشی اختیار کرتے ہیں اور آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھتے وہ اپنی سرکشی میں بڑھے ہی چلے جاتے ہیں پس اللہ ایسے لوگوں کو ڈھیل دیتا ہے اور پھر سزا دیتا ہے ” کیا ہم سب اپنے اہم معاملات کو فراموش کرکے کسی دکھی غمزدہ انسان کو محض سیاستدان سمجھ کر اس کے وجود کے مزید حصے بُخرے کریں گے؟ سوچئے آج ہم انسانیت کے کتنے درجوں سے نیچے گرتے چلے جا رہے ہیں پاکستان کا سوچیں اسلام کے خوبصورت ہمدردانہ پیغامات کو اجاگر کر کے سرحد سے پار دشمن کو اہم معاملات پر بات کر کے پیغام دیں کہ ہم اعلیٰ قوم ہیں الحمد للہ افسوس آج کشمیر بھول گئے۔
آج بوسینیا اور سمندر میں ہزاروں بے یارو مددگار لوگ ہمیں یاد نہیں شام میں کیا تباہی مچی ہوئی وہ یاد نہیں فلسطین میں کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے کسی کو کچھ نہیں پتہ ملک کے اندر کیا ظلم و ستم کا دور دورہ ہے سب ختم حالیہ ہوئی زلزلہ سے تباہ کاری آج کسی کو یاد نہیں کیونکہ اس وقت ہم قصابوں کی بستی میں ہیں اور اپنی اپنی جملہ بازی سے ہوئے کسی کی روح کے ٹکڑے بڑھ چڑھ کر گن کر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں پوری تندہی سے مصروف ہیں ہم نجانے کس اسلام کے داعی ہونے کے دعویدار ہیں۔
اس وقت ایک انسان ہتھے چڑھ گیا اور اب کردہ اور ناکردہ سب گناہ اس کے ہر سمت شیطان پھیلاتے جائیں گے اور کسی انسان کی ذہنی موت سے اسکی کردار کشی سے خوب میڈیا کمائے گا ہر بات میڈیا بھول چکا اس وقت یاد ہے تو صرف اتنا کہ ہم انسان نہیں قصابوں کی بستی میں رہنے والے قصاب ہیں اور ادھیڑ کر بوٹی بوٹی کر کے بتائیں گے کس قدر جابر اور ظالمانہ صلاحیت کے مالک ہیں ہم یہ ذبیحہ ہم چھری چاقو سے نہیں بلکہ قلم سے کریں گے بغیر اسکی حرمت کو یاد رکھے خُدراا اس وقت ہمٰیں قصاب نہیں انسان بننا ہے۔