بابری مسجد شہید کرانے والی انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے گجرات میں سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے کے حوالے سے بدنام وزیراعلیٰ نریندر مودی کو پارٹی کی طرف سے ملک کے آئندہ وزیراعظم کیلئے امیدوار نامزد کیا ہوا ہے۔ 2002ء کے گجرات فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان قتل کر دئیے گئے تھے ان میں درجنوں کو زندہ جلا دیا گیا، شر پسندوں کی سرپرستی اور پولیس اہلکاروں کو کارروائی سے روکنے پر نریندر مودی کو قصاب وزیراعلیٰ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ان کے اسی کردار کی وجہ سے امریکہ نے انکے اپنے ہاں آنے پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔
گزشتہ دنوں جموں میں منعقدہ انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی اپوزیشن جماعت بی جے پی کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے اٹوٹ انگ کا راگ الاپتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کی ایک انچ زمین بھی کسی کو نہیں دی جاسکتی’ 1947ء میں کشمیر کا فیصلہ درست نہیں ہوا۔ دفعہ 370 سے علیحدگی پسندی کو فروغ ملا۔ کشمیر کی ایک خصوصی حیثیت ریاست کی تعمیرو ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم کشمیر کو مثالی ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن یہاں کے حکمران کرپٹ ہیں جو بار بار کشکول لے کر نئی دہلی جاتے ہیں۔نریندر مودی کے اس بیان پر حریت قیادت نے سخت رد عمل کااظہار کرتے ہوئے مودی کی وزارت عظمیٰ کیلئے امیدواری کو بھارت کے جمہوری دعوؤں کے متضاد قرار دیا۔ اور کہاکہ نریندر مودی بذات خود ایک تنگ نظر انسان ہے اور جب مسئلہ کشمیر کی بات آتی ہے تو بی جے پی سمیت دیگر پارٹیاں بھی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں ریاستی عوام نے ان فرقہ پرستوں کو مسترد کر دیا ہے اور تحریک اّزادی کے ساتھ یہاں کے عوام کی جذباتی وابستگی برقرار ہے اور اس میں کسی بھی سطح پر کمی نہیں آئی ہے۔
ایک طرف بی جے پی کے ہی لیڈر اور سابق وزیراعظم انسانیت کے دائرے میں رہ کر مسئلہ کشمیر حل کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف نریندر مودی اور اس جیسے افراد حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ مودی کے جلوسوں اور تقریروں سے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت نہ ختم ہوگی اور نہ ہی کشمیری عوام تحریک آزادی ست دستبردار ہونگے۔ مودی کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے باتیں اس کے ماسبق بھی کہتے کہتے گذر گئے لیکن ان سے نہ کوئی فرق پڑا اور نہ ہی اب پڑے گا۔ شاما پرساد مکھرجی بھی یہی باتیں کرتے تھے جو اب جموں میں بی جے پی کے وزارت عظمیٰ امیدوار نریندر مودی کہہ رہے ہیں لیکن نہ تو شاما پرساد کے کہنے سے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت متاثر ہوئی اور نہ ہی ریاستی عوام تحریک آزادی سے دور ہوئے۔
Corruption
بھارت نے فوجی دباؤ اور کرپشن کے ذریعے کشمیری عوام کو آزادی کی تحریک سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ایسا ماضی میں ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے۔ مودی بھارت کے فرقہ پرستوں کا لیڈر ہوسکتا ہے لیکن ریاست جموں وکشمیر میں اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مودی کا ماضی مسلمانوں کے خون سے لت پت ہے اور اسکی سیاست اور اس کے جسم پر مظلوموں کے خون کے دھبے نمایاں ہیں۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متتازعہ خطہ ہے اور اسکے حل کیلئے بھارت کو ہٹ دھرمی چھوڑنی ہی پڑے گی۔ نریندر امودی کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کرنا بھارت کی جمہوریت اور سیکولرزم کیلئے باعث شرم ہے۔ 2002میں اسی شخص نے گجرات میں 3ہزار مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا اور اس حوالے سے پولیس کو کھلی چھٹی دی جبکہ حد درجہ یہ ہے کہ کئی ماوں کے شکم چیر کر ان میں سے بچوں کو نکال کر نیزوں پر بلند کیا گیا۔ بھارتی مصنف اور شاعر جاوید اختر نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا ہے کہ نریندر مودی قوم مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے اور اب 90 فیصد بھارتی ان کیخلاف ہیں۔ نریندر مودی کبھی بھی اچھے وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ نریندر مودی نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کے ذمہ دار ہیں بلکہ انہوں نے ملک میں غیر جمہوری سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا ہے۔
نریندر مودی کا بچپن سے ہی جھکاؤ ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس کی جانب تھا۔ 2001 میں یشو بھائی پٹیل کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد مودی کو گجرات کی قیادت سونپی گئی۔ مودی کے اقتدار سنبھالنے کے تقریبا پانچ ماہ بعد ہی گودھرا ریل حادثہ ہوا جس میں کئی ہندو کارسیوک ہلاک ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد فروری 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے۔ ان فسادات میں تقریبا 2000 افراد ہلاک ہو گئے جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔
مودی پر یہ الزام لگے کہ وہ فسادات کو روکنے میں ناکام رہے اور انہوں نے اپنے فرض کی ادائیگی نہیں کی۔ گجرات میں ہونے والے فسادات کی بات کئی ممالک میں اٹھی اور مودی کو امریکہ جانے کا ویزا نہیں ملا۔ برطانیہ نے بھی دس سال تک ان سے اپنے تعلقات منقطع رکھے ہوئے ہیں۔کشمیری حریت رہنمائوں نے مودی کو خبردار کر دیا ہے کہ 15اگست 1947کو ریاست کی جوہیت اورنقشہ تھا اسکے خط و خال میں کوئی بھی تبدیلی لانے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ عالمی سطح پر لوگوں کو کشمیری یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بھارت نے کشمیر پر بندوق کے زورپر قبضہ کیا ہے۔ کشمیر اٹوٹ انگ نہیں بلکہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
کشمیر میں جہاں گمنام قبروں کا انکشاف ہوا وہی 10ہزار افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ ہزاروں خواتین کی عصمت ریزی بھی کی گئی۔ کشمیری عوام اپنے پیدائشی اور بنیادی حقوق کیلئے ایک جائز جدوجہد کررہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی امنگوں اور قربانیوں کا احترام کیا جائے اور ان وعدوں کا ایفا کیا جائے، جو بھارت نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے ساتھ کئے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ حکومت پاکستان کو کشمیریون کے جذبات کی ترجمانی کرنی ہو گی۔نریندر مودی جو مسلمانوں کا قاتل ہے پاکستانی و کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ دوستی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
حکومت پاکستان کو کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کرنی چاہئے اور انڈیا کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ جب تک وہ کشمیر سے اپنی فوج نہیں نکالتا تب تک نہ مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی دوستی، اگر ہندو بنئے کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات نہ کی گئی تو وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہیں آئے گا۔مودی جموں میں جلسوں میں تقریروں کے دوران جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ کسی صورت پورے نہیں ہو سکتے کیونکہ کشمیری اپنے حق کے لئے قربانیوں پر قربانیاں دے رہے ہیں مگر ان کے عزم و حوصلہ میں کمی نہیں آئی۔ بھارت کے قصاب مودی جو مرضی کر لیں انہیں ہر صورت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔