تحریر : وقار انسا عیدالفطر کے گزرتے ہی اکثر عید الاضحی پر سنت ابراہیمی کی پیروی کے لئے قربانی کا جانور خریدنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے دیہاتوں مین لوگ کچھ کم قیمت پر جانور خرید کر اس عرصہ میں رکھ لیتے ہیں لیکن شہری علاقوں میں یہ نا ممکن امر ہے لہذا کچھ حج کے ایک دن پہلے اور کچھ حج والے دن جانور خریدتے ہیں عید والے دن بھی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی ہی ہوتی ہے -مگر اس کے نتیجے میں دام آسمان سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں نہ صرف اس دن بلکہ مہینہ قبل بھی یہی حال ہوتا ہے سارا سارا دن ایک سے دوسری منڈی جانور خریدنے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں – سفید پوش حسرت بھری نظروں سے ان جانوروں کو دیکھ کر لوٹ آتے ہیں – ایک ایک بیل پندرہ بیس لاکھ اور جناب اس دفعہ بیلوں کی جوڑی ایک کروڑ میں !!! کوئی وقت تھا کہ پانچ دس لاکھ میں لوگ گھر خریدتے تھے اور اس کے لئے ساری زندگی رقم تھوڑی تھوڑی بچت کے حساب سے جمح کرتے رہتے تھے۔
ایک گھر خرید کر اللہ کا شکر کرتے کہ سر چھپانے کا ٹھکانہ بنا لیا اب اپنا وقت بھی پورا کریں گے اور بچوں کو بھی سہولت رہے گی اج کے دور میں گھر کروڑ کے ہوئے تو مویشی بھی کروڑ کے بکنے لگے – پہلے بہت امیر کبیر انسان کو لکھ پتی اور اس کے بعد کروڑ پتی کہا جاتا تھا – اب مویشی اتنی قیمت کے خریدنے والے ارب پتی کھرب پتی ہوں گے ! قرآن کریم کے الفاظ ہیں کہ اللہ کو خون اور گوشت نہیں پہنچتا مگر تمہارا تقوی پہنچتا ہے قربانی تو اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے غور کیجئے حضرت ابراہیم علیہ سلام جن کی سنت کی ہم پیروی کرتے ہیں ان کا تقوی کا درجہ کتنا بڑا تھا انہوں نے تو ساری عمر اللہ کی خوشنودی اور رضا کو مقدم جانا – چھوٹی عمر میں بت پرست باپ کے ھاتھوں سختیاں برداشت کیں ہجرتیں کیں بڑھاپے میں ملنے والی اولاد کو اللہ کے حکم کی تعمیل میں چھوڑ آئے۔
دین کے راستے پر چلنے کی پاداش میں پریشانیاں اٹھائیں نمرود نے آگ میں ڈلوایا جو حکم ربی سے گلزار بن گئی کیونکہ ان کے تقوی کا بہت بڑا مقام تھا اللہ نے اولاد جیسی نعمت قربان کرنے کا خواب میں دکھایا تو آپ نے تعمیل کر دی آپ کی فرمانبرداری کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئی کہ حضرت اسماعیل کو بچا کر دنبہ ان کی جگہ فرشتے لے آئے اور یوں یہ سنت مسلمانوں کے لئے فرض ہوئی ھم سوچیں ھمارے تقوی کا کیا معیار ہے؟۔
ALLAH
صاحب ثروت لوگوں کی دولت کی نمائش اور سفید پوش لوگوں کی حسرت ! اللہ کی راہ میں خوبصورت اور بے عیب جانور اپی استطاعت کے حساب سے قربان کرنے کا تو حکم ہے مگر اپنی دولت کی نمائش مقصود ہر گز نہیں کروڑ کے جانور کا گوشت بھی پھر ایسے ہی صاحب ثروت لوگوں کو دیا جاتا ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کتنا مہنگا جانور قربان کیا اور اس سے اسلام کی وہ روح ختم ہوجاتی ہے کہ جس کے تحت غربا اور فقرا کو گوشت دیا جائے تاکہ اس دن وہ بھی اچھا کھانا کھا سکیں یہ بہتر نہیں کہ اچھا خوبصورت جانور خریدنے کے بعد وہ رقم غریب گھرانوں میں عید کا راشن ڈلوانے میں کام آئے۔
اتنی بڑی رقم سے کتنے گھرانے اس دن اور اس کے بعد پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں گے اور اس نیت کا کتنا بڑا اجر ہو گا اللہ تو اپنے بندوں کے عیب ڈھکتا ہے اسی لئے تو قربانی کا یہ طریقہ سکھا دیا ورنہ ھماری نیتوں کے پول کھل جاتے اگر آج بھی قربانی قبولیت پر پہلے کی طرح آسمان سے آگ آتی اور اٹھا لے جاتی سوچئے پھر کیا ہوتا ؟ ھماری نیت آشکارا ہو جاتی -جب لوگ اتنے داموں مویشی خریدتے ہیں تب ہی منڈی میں بھا بڑھتا ہے۔
Goat Sale
بیچنے والے جانوروں کی خوراک کے جھوٹے ناٹک کر کے ان سے رقم لیتے ہیں اور وہ اپنی حیثیت کی نمائش میں خریدتے ہیں -لاکھ کا بکرا دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ بکرا گوشت پوشت کا ہے یا اس کے پیٹ میں کوئی خزانہ ہے – اپنی خوشیوں میں مستحقین کو شریک رکھیں یہ کار ثواب ہے-قربانی کے گوشت میں ان کا بھی حصہ ہے نہ کہ صرف صاحب حیثیت کا۔