تحریر: رانا عبدالرب شفقت بزدار سرائیکی خطہ کی ایک مضبوط آواز ہے ایک عرصہ سے ارادہ باندھنے کی کوشش میں تھے کہ شفقت بزدار سے ملا جائے مگر زندگی کے جھمیلوں میں فرصت کے لمحات مشکل سے ہی نکل پاتے ہیں زندگی کو جیسے پر لگ گئے ہوں اور اس سفر میں پلک جھپکتے ہیں تو بہت کچھ پیچھے رہ جاتا ہے ۔خیر فرصت کے لمحات میسر آ ہی گئے مگر اس صورت کہ ملاقات کے لئے جنوبی پنجاب کے اس مہاندرے شاعر نے ہمیں خود چند لمحات میسر کئے ۔دریائے سندھ کے غربی کنارے لیہ شہرکے اختتامیہ پر جب ہم اُن کی رہائش گاہ پر پہنچے تو دروازہ شفقت بزدار نے کھولا اور ہم ان کی معیت میں دو زانو ہو کر بیٹھ گئے ۔شفقت بزدار کی گفتگو میں ایک بڑے انسان کا بڑا پن جھلکتا ہے۔
جنوبی پنجاب کے یونان تونسہ کی سنگلاخ دھرتی سے جنم لینے والے شفقت بزدار سے جب ہم نے ابتدائی سوال یہ کیا کہ ”اپنے بارے کچھ کہیے گا ” تو گویا ہوئے کہ ڈیرہ غازیخان کی تحصیل تونسہ کی بستی بزدار میرا مسکن ہے ۔صوفی نذر حسین بزدار میرے مرشد ہیں جن کے چرنوں میں بیٹھ کر زندگی کے نشیب و فراز کے رموز ملے ۔تعلیم کے حصول کے بعد کوئٹہ میں بلوچستان کانسٹیبلری میں بطور کلرک سروس کی بعد ازاں پاکستان ریلوے جوائن کیا ۔زندگی کے اسی سفر میں بطور ٹیچر تونسہ میں رہا اور اب اسسٹنٹ پروفیسر( اردو)25،30برس سے لیہ میں مقیم ہوں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی بستی ”بستی بزدار”نے مجھے غلام یحییٰ خان سے شفقت بزدار بنا دیا۔
شاعری میں کہاں سے اصلاح لی ؟ اقبال سوکھڑی سرائیکی خطہ کا ایک بڑا نام ہے اور وہ میرے استاد شاعر ہیں۔اُن کے مشہور سرائیکی شاعری مجموعہ ”کریہہ دا قرض”کے پس منظر پر بات ہوئی توشفقت بزدار کا کہنا تھا کہ کتاب کا ٹائٹل ہی اس عنوان کا پس منظر ہے جہاں سرائیکی دھرتی پر اگنے والے ایک معروف درخت ”پھلاہی”کی بے برگ تصویر اور تاحد نظر پھیلی ہوئی قحط سالی جس تسلط میں ہر ذی روح جکڑی ہوئی ہے تاہم شفقت بزدار نے یہ بھی وضاحت کی کہ جہاں پھکیوں(پرندوں)کے پر بکھرے ہوں تو ایسے مناظر قحط سالی کا پتہ دیتے ہیں اور سنگلاخ خطہ جو بے آب و گیاہ ہے وہ کوہ سلیمان سے کشمور تک پھیلا ہوا ہے ۔اسے دامان کہا جاتا ہے شعری ضرورت کے تحت بعض شاعر ”الف”کا استعمال نہیں کرتے۔دامان دراصل دامن سے نکلا ہوا لفظ ہے یعنی کوہ سلیمان کے دامن کا علاقہ ”دامان”ہے۔
Shafqat Buzdar
سرائیکی شاعری کی طرف رغبت کی بات پر کہنے لگے کہ سرائیکو کو ہم نے ضیاء دور میں پڑھا ۔کمپنی باغ ڈیرہ غازیخان میں80کے عشرے میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا جس میں مرحوم تاج لنگاہ،تاج لنگاہ کے بارے میں اتنا کہہ دوں کہ سرائیکی خطہ کا یہ قد آور فرد بھٹو کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھا جنہوں نے 1973ء کا آئین لکھنے میں جس نے معاونت کی ۔استاد فدا حسین گاڈی سرائیکی شاعری میں ایک بلند پایہ نام ہے ۔حمید اصغر شاہین،نور الحق قریشی جو ایئر مارشل اصغر خان کے قریبی احباب میں شمار ہوتے تھے ۔ڈاکٹر نعیم یہ تین روزہ مشاعرہ تھا اور میں سب سے زیادہ اسٹیج پر 40منٹ رہا اور یہ مشاعرہ خدا کے فضل و کرم سے میرے نام ہوا۔ اس اسٹیج پر میں سرائیکی خطہ کے عوام کے حقوق کو ”جاگ سرائیکی جاگ”نظم پڑھ کر اجاگر کیا جسے سامعین نے سب سے زیادہ سراہا میں نے اس نظم میں جاگیردارانہ جبر کو نام لے کر ننگا کیا اسی نظم سے متاثر ہو کر بعد میں اکثر شعرا نے چربہ سازی کی ۔اکابرین کی تعداد خاصی تھی مگر میلہ”شفقت فقیر”نے لوٹا۔اس نظم سے متاثر ہو کر سرائیکی قوم پرست رہنماء حمیدا صغر شاہین نے اپنے بیٹے کا نام سرائیکستان رکھا۔ہم نے استاد فدا حسین گاڈی سے سیکھا کہ بصارت کیا ہے ،بصیرت کیا؟
کیا آپ نے سرائیکی ادب کے لئے کوئی ایسا کام کیا جس پر نازاں ہوں؟ میں نے تھل دامان سرائیکی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی اور ایک رسالہ ”سرت”لڑی کے طور پر نکالا۔مرحوم واحد بخش بھٹی میرے اچھے رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔جب میں ریلوے میں ملازم تھا تو وہ میری شاعری سننے کی خاطرمیں جہاں کہیں بھی ہوتا تلاش کرکے لے آتے۔مجھے ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ میرے ماتھے پر محسن نقوی نے میری شاعری کے اعتراف میں بوسہ دیا۔نسیم لیہ کی بزم تخلیق نو کے مشاعرے پڑھے اور 1979ء میں ابوالاثرحفیظ جالندھری سے مصافحہ کیا۔
سرائیکی شاعری کی پذیرائی آپ کہاںتک دیکھ پاتے ہیں؟ دو نمبری کا دور ہے۔بے بو،بے ذائقہ اور بے رنگ افراد کو بھاگ لگ گئے ہیں اور اہلیت کے مد مقابل ایک مخصوص طبقہ اور مخصوص سوچ بر سر پیکار ہے ۔سرائیکی ادب کو مقامی سطح پر بھی نام نہاد ٹولہ نے یرغمال بنا رکھا ہے ۔میں دعا گو ہوں کہ اس یرغمالی ٹولہ کی قید سے ہمارا ادب آزاد ہو ۔اس کا المیہ یہ ہے کہ نام نہاد ”آورد”کے شاعر سرقہ شدہ مواد ایم۔اے کے سلیبس میں شامل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔اس ادبی بد دیانتی پر ان کا کوئی احتساب نہیں ۔شہباز نقوی (مرحوم)ان جیسے افراد کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”شفقت ہم تخلیق کار ہیں یہ نام نہاد چار کتابیں کسی کی سامنے رکھیں گے اور پانچویں کتاب اپنی نکال لائیں گے۔
Adab
آپ خود بتائیں کہ ایسے لوگوں کی آپ ادب کے لئے کیا خدمات دیکھتے ہیں۔ جمشید دستی نے جنوبی پنجاب کے ادبائ، شعراء کے لئے جب عاشق بزدار سے فہرست مانگی تو عاشق بزدار نے بھی ایسے افراد کی فہرست بنائی جن کا تعلق عاشق بزدار کی ذات تک تو تھا لیکن ادب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ شاعری کے بارے میں میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کچھ لوگ نقاد ہو سکتے ہیں،محقق ہو سکتے ہیں مگر شاعر نہیں ہو سکتے ۔کیوں کہ شاعر لطیف جذبوں کا مالک ہوتا ہے ۔اسے ”آمد” ہو تی ہے مگر یہاں تقریباً آورد کے شاعر ہیں۔ آج تقریباً بھانڈ، میراثی، موچی اکٹھے ہو گئے ہیں۔
مقامی شعراء میں سے نسیم لیہ کو کہاں دیکھتے ہیں؟ کچھ لوگوں کی نسیم لیہ کے حوالے سے کوئی خدمات نہیں جبکہ وہ نسیم لیہ ایوارڈ تقسیم کرتے پھر رہے ہیں۔نسیم لیہ جیسے قدآور شاعر کے لئے مجھ سے زیادہ کس نے لکھا؟ میں نے ان کی ذات کومنظوم خراج تحسین پیش کیا۔میں نے ان کی وفات پر مرثیہ لکھا اور ان کے لئے اشعار کہے ۔آج جو لوگ خود کو نسیم لیہ سے منسوب کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے اس کی گڈی پر بیٹھ کر پیڈل مارے جائیں اور حاصل کچھ نہ ہو۔
کتاب زیست کے پنوں میں سے اپنی کچھ یادیں زیر بحث لائیں؟ مجھے ملک عزیزالرحمن اولکھ ،شمشیر حیدر ہاشمی ،خورشید ملک ،ریاض میلسی جیسے افراد کی سنگت کا شرف رہا۔مجھے ایک صدمہ ہے کہ میں ثریا ملتانیکر جیسی بڑی آواز کے لئے ان کے اصرار کے باوجود کوئی گیت نہ لکھ سکا۔تاہم راحت ملتانیکر جو ان کی بیٹی ہے نے میرا گیت گا کر میرے اس صدمے کا ازالہ کیا۔
South Punjab
جنوبی پنجاب کی آپ توانا آواز ہیں مگر یہ گوشہ نشینی کیوں؟ مغموم لہجے میں گویا ہوئے کہ کئی روز قبل نسیم لیہ (مرحوم) کے حوالے سے ایک پروگرام ہوا جس میں مجھے نہ تو دعوتی کارڈ ملا اور نہ ہی مجھے مدعو کیا گیا تاہم نسیم لیہ سے چوں کہ قلبی تعلق تھا سو رہا نہ گیا اور شامل تقریب ہوا اور خالصتاً سامع بن کر گیا۔ایک ایسی تقریب جہاں آپ کو باضابطہ مدعو نہ کیا گیا ہو اور وہاں آپ کو کوئی یہ اٹھ کر کہے کہ آپ ایوارڈ تقسیم کریں تو کیا یہ دانستہ آپ کی شخصیت پر طنز نہیں ہو گا؟ اس تقریب کے بعد میرے ایک ”شکر ”والے شاگرد نے کتابچہ لکھا جس میں میرے ساتھ غلط بات منسوب کردی گئی کہ میں نے ذات پات کی وجہ سے ایوارڈ تقسیم نہیں کیا۔
حالاں کہ میں اگر ذات پات کا قائل ہوتا تو اپنے ”شکر ”والے شاگرد کو ”بھٹہ ” کا لاحقہ عطا نہ کرتاتاہم اپنے کتابچے کو میرے حوالے سے شہرت دینے کے لئے منافقانہ چال چلی گئی مگر مجھے کسی سے کوئی سروکار نہیں میرا اثاثہ ایم۔آر ملک جیسے لکھاری ہیں۔ڈاکٹر خیال امروھوی،نسیم لیہ ،شہباز نقوی ،ڈاکٹر افتخار بیگ،ڈاکٹر ظفر عالم ظفری ،مہر اختر وہاب کی سنگت پر مجھے فخر ہے۔