ضمنی الیکشن میں قومی اور صوبائی سیٹوں پر بعض اپ سیٹ دیکھنے میں آئے۔ تحریک انصاف پشاور اور میانوالی میں اپنی چھوڑی ہوئی قومی اسمبلی کی سیٹوں پر شکست کھا گئی جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب سے اپنی تین سیٹیں ہار گئی۔ پہلے اپ سیٹ میں این اے ون پشاور اے این پی کے غلام احمد بلور نے تحریک انصاف کے گل بادشاہ کو شکست سے دوچار کر دیا۔ یہ سیٹ عمران خان نے خالی کی تھی۔ دوسرا اپ سیٹ این اے 71 میانوالی میں عمران خان کے آبائی حلقے میں ہوا۔
عام انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے یہ سیٹ پارٹی کے لئے محفوظ سمجھتے ہوئے چھوڑ دی تھی لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا۔ مسلم لیگ ن کے عبیداللہ شادی خیل نے تحریک انصاف کے ملک وحید کو 15 ہزار ووٹوں کی برتری سے شکست دے دی۔ تیسرااپ سیٹ پی پی 193 اوکاڑہ میں ہوا جہاں مسلم لیگ ن کی چھوڑی ہوئی سیٹ سابق وزیر اعلی پنجاب کے بیٹے، پیپلزپارٹی کے میاں خرم جہانگیر وٹو 41426 ووٹ لے جیت گئے۔ ن لیگ کے نورالامین وٹو 25469 ووٹ لے سکے۔ یہ سیٹ ن لیگ کے میاں معین احمد وٹو نے خالی کی تھی۔
چوتھا اپ سیٹ پی پی 243 ڈیرہ غازی خان میں ہوا جہاں مسلم لیگ ن کے ذوالفقار کھوسہ کی جیت ہوئی تھی وہ سیٹ تحریک انصاف لے گئی۔ احمد علی دریشک نے 23102 ووٹ لے کرذوالفقار کھوسہ کے دونوں بیٹوں کو شکست دے دی۔ ن لیگ کے امیدار حسام الدین 20892 ووٹ لے کردوسرے جبکہ پیپلزپارٹی کے سیف کھوسہ کو انیس ہزار ووٹ ملے۔ پانچویں اپ سیٹ میں پی پی 247راجن پور میں عام انتخابات کے دوران شہباز شریف نے یہ سیٹ بھاری اکثریت سے جیتی تھی اور خالی کر دی تھی۔
شاید ووٹروں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے تین ماہ بعد یہاں سے ن لیگ کا بستر بوریا گول کر دیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار علی رضا خان 46 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ ن لیگ کے عبد القادر خان ممدوٹ 36 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ این اے 235 سانگھڑ میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ فنکشنل کے پیر صدر الدین کی چھوڑی ہوئی سیٹ لے اڑی۔
عام انتخابات میں اس حلقے سے شکست کھانے والی شازیہ مری نے اس بار فنکشنل لیگ کے خدا بخش راجڑ کو تیرہ ہزار ووٹوں سے شکست دے دی۔ ساتواں اپ سیٹ این اے 177 مظفر گڑھ ہوا۔ جمشید دستی کی چھوڑی گئی سیٹ پر ان کے بھائی جاوید دستی پیپلزپارٹی کے نور ربانی کھر سے ہار گئے۔ نور ربانی کھر نے 51 ہزار 355 جبکہ جاوید دستی نے 48 ہزار 563 ووٹ لئے۔ نور ربانی عام انتخابات میں جمشید دستی سے ہار گئے تھے۔