بیالس افراد کے قاتل خوش, گھر ماتم کدے!!!

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر ادارہ ڈاکو راج کے اصولوں پر کامکر رہا ہے ۔جس طرح ڈاکو لوٹ مار کر کے ہمارے ہاں پکڑے نہیں جاتے ہیں اسی طرح ادارے بھی مال بٹور کر پکڑ میں نہیں آتے ہیں۔ ان کی بلا سے ملک کے خزانے کو چاہے جتنا نقصان ہو! چاہے جتنے لوک ہلاکتوں کا شکار ہو جائیں اورملک میں چاہے جتنے لوگوں کے جنازے اٹھیں!!!بس ان کی اور ان کے افسران
کی مٹھی گرم رہنی چاہئے اور ان کے پیٹوں کا دوزخ بھرتے رہنا چاہئے۔ وہ ادارے جن سے لوگوں کو وطن پرستی اور حُب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ لینے چاہئیں وہ ہی آج کرپشن اور بے ایمانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیںیہ کیا خاک کسی کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دیں گے؟ محبِ وطن لوگوں کا کہنا ہے بقولِ شاعر کہ ”دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات
ہوگئی“ وہ ادارے جن کی ذمہ داری ملک سے اسمگلنگ اور غیر قانونی اشیا کی ترسیل کو روکنا ہے اور کسی طرح بھی غیر قانونی طور چیزوں کو اپنی حدودسے باہر نہ جانے دینا ہے۔ غیر قانونی دھندوں کو روکنا اور ملک کے خزانے کی حفاظت کرنا ہے۔وہ ہی لوگ اسمگلنگ کے ہاتھ مضبوط کر کے ملک کے خزانے پر شب خون مارنے میں صفِ اول میں دیکھے جا رہے ہیں۔ان کے اس فعل سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا سالانہ نقصان بر داشت کرنا پڑ رہا ہے۔یہ لوگ جنہیں جائز طریقے پر ملک کے خزانے سے سالانہ جتنا نقصان یہ قومی خزانے کو پہنچا رہے ہیں اس سے بھی کہیں زیادہ تنخواہوں کی مد میں دیدیا جاتا ہے۔مگراس کے باوجودجائز آمدنی سے ان کے پیٹ کا دوزخ نہیں بھرتا ہے۔

Accident

Accident

گذشتہ روز حب کے علاقے میں حب شہر سے تیس میل کی مسافت اور گڈانی موڑ سے بیس میل کے فاصلے پربسوں کا اندہناک حاثہ رونما ہوا۔یہ بسیں کوئٹہ اورتربت سے کراچی کی جانب عازمِ سفر تھیں۔ یہ ایسا اندہناک حادثہ تھا جس نے 42معصوم انسانوں کو ابدی نیند سلا دیاجس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ بہت سے مسافروں نے بسوں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر چھلانگیں لگا کر
اپنی جانیں بچائیں۔ حادثہ باگڑ نالے کے قریب ہوا۔جس میں اس حادثے نے اداروں کی غفلتوں کی مکمل پول پٹی کھول کے رکھ دی۔اونٹ کی کلوں کی طرح ہمارے کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے کی کوئی کل سیدھی دکھائی ہی نہیں دیتی ہے۔ کیوں کہ ہر ادرارا رشوتوں کے بل پر اپنے امور انجام دے رہا ہے۔ آرسی ڈی ہائی وے پر سڑک کی مینٹیننس اور بحالی کے کام کرنے والے
ادارے کی مبینہ غفلت اور اور لاپراواہی کے سبب سے حب ریور روڈپر بس حادثہ ہوا۔ اس بس میں بے تحاشہ ڈیزل اور پیٹرول نا جائز طریقے پر لاد کر لایا جا رہا تھا،کیونکہ سڑک کے درمیان ایک گڑھا ہونے کی وجہ سے تیزرفتار مسافر بس بے قابوب ہو کر سامنے سے آنے والے ایک ہیوی ڈیوٹی ٹرالر سے جا ٹکرائی جس پر سے ڈیزل اور پیٹرول سے بھرے ڈرمو ں نے آگ پکڑ لی ۔مسافر بس کے تعاقب میں آنے والی ایک اور بس جو اسی طرح ڈیزل اور پیٹرول سے لدی پھندی آرہی تھی اور سامنے سے آنے والا ایک اور ٹرک اس بس سے آ ٹکرایا۔

جس سے حب روڈ پر ایک ہولناک منظر پیدا ہوگیا آگ نے تیزی کے ساتھ ہر چیز کو جلا کررکھ دیا۔ان معصوموں کی موت کا لہو کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا جائے ؟؟؟ روڈ اتھارٹی اور اسکے ٹھیکیداروںکے؟ یانا ا ہل پولس کے؟ یاایف سی کے؟ یااسمگلنگ کی روک تھام کرنے والی رینجرز کےاہلکار ؟ یا یہ سب ادرے ؟؟؟ لاکھوں ٹن نا جائز طریقے پر پیٹرول اور ڈیزل ایران سے پاکستان اسمگل ر کے بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے لاد کراچی شہر میں لا کر فروخت کیا جا رہا ہے
جس سے کروڑوں ناجائز روپے کمائے جا رہے ہیں۔ حکومت کو سوائے نقصانات کے کچھ بھی تو نہیں مل رہا ہے۔اس اسمگلنگ میں ہمارے تمام حفاطتی ادرے جو اس علاقے میں کام کر رہے ہیں سب کے سب برابر کے شریک ہیں۔ہمیں ان تمام کی حُب الوطنی پر شک اس وجہ سے ہے کہ جو ذمہ داریاں اسٹیٹ کی طرف سے ان کو سونپی گئی تھیں اس کا انہوں نے کبھی بھی پاس اور مظاہرہ نہیں کیا ہے ۔بلکہ اپنی حیثیت کا مسلسل نا جائز فائدہ اٹھایا ہے۔ جسکی وجہ ملک کا وہ خزانہ جس سے یہ اپنی تنخواہیں بٹورتے اور پھر اس کے ساتھ ہی بھر پور بے ایمانیوں کے مرتکب بھی ہو رہے ہوتے ہیں، اُس خزانے کو ان نااہلوں نے تباہی کے گڑھے پر پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ان بے ایمانوں کو رب ِ کائنات پر شائد بالکل بھروسہ نہیں ہے۔

جب ہی تو یہ اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ میں بجائے رزقِ ہلال پہنچانے کے ناجائز اور حرام سے ان کے پیٹوں کی دوزخ کوبھر رہے ہیں۔ ان بے ایمانوں کو یہ تک پتہ نہیں ہے انہیں ملے گا وہ ہی جو ان کا مقدر ہے۔ اس کو کو ئی چاہے جائز طریقے سے حاصل کر لیں یا نا جائز طریقے سے۔انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ جن کے لئے یہ بے ایمانیاں کر رہے ہیں کل ان کی مغفرت کے لئے بھی ہاٹھ اٹھاتے ہیں یا نہیں اور یہ کہ یہ اس حرام کی کمائی ہوئی دولت سے عیاشیاں نہیں کریں گے؟یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ”مالِ حرام بود ،جائے حرام بود“جس کا مفہوم
میں یہ سمجھا ہوںکے حرام مال کا ٹھکانہ بھی حرام جگہ ہی ہے۔ پولس گردگی سے تو ہر چھوٹا بڑا ہر پاکستانی خوب واقف ہے۔ان کی نااہلی اور رشوت ستانی کا منہ بولتا ثبوت ایران سے اسمگلنگ کے ذریعے لایا جانے والا پیٹرول و ڈیزل اور لوبری کینٹ ہے۔ جس کی ان کے علاقوں سے غیر قانونی گذر ایک سوالیہ نشان ہے۔

کیونکہ یہ آئل لانے والے لوگ ہر مقام سے اپنا سامان آسانی سے نکال لیجانے کے فن سے واقف ہیں ۔ جہاں کہیں ان سے سوال ہوتا ہے وہیں ان کے پاس مُٹھی گرم کر نے کا سامان بھی ہوتا ہے اور پولس اہلکار اس کو حق سمجھ کر بڑے اطمنان کے ساتھ جیب گرم کر کے خوشی خوشی گھر
لوٹتا ہے اور اپنے پورے خاندان کو اس عذاب میں شریک بنا لیتا ہے۔کہ حرام کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔بلکہ پولس ناکوں کے متعلق یوں کہاا سکتا ہے کہ ہر ایک کی ایک مخصوص قیمت ہے جو گذرتے ہر مقام پر ادا کردی جاتی ہے۔اس کھیل میں اوپر سے لے کر نیچے تک ہر ایک کے ہاتھ آلودہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایف سی کا حال بھی ان پولس والوں جیسا ہی ہے۔مجال ہے کہ کہیں بھی
ایمانداری اور حُب الوطنی دکھائی دیتی ہوحالاں کےان کا تعلق تو غالباََ دفاعی اداروں سے ہے۔ مگر حُب الوطنی کا یہاں بھی اُتنا ہی فقدان ہے جتنا پولس میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بھی ناجائز و اسمگل شدہ مال کو تر نولہ سمجھتے ہوے ہڑپ کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ایران سے اسمگل شدہ تیل اور اس کی دیگر مصنوعات بغیر کسی کسٹم و ڈیوٹی کی ادائیگی کے بڑی آسانی کے ساتھ ان کی نگرانی میں چیک پوسٹ سے گذار دی جاتی ہےں۔ بالکل یہی حال ہماری معصوم رینجرز کا بھی ہے ۔جو عسکری ادروں میں کا ہی ایک ادارہ ہے۔جہاں پر سب سے زیادہ حُب الوطنی کا بھی بھر پور فقدان دیکھا جا سکتا ہے۔

ہمارے تمام ادارے جو عوامی راستوں پر ملک وملت کی خدمات کے لےئے لگائے جاتے ہیں وہ اپنے فرضِ منصبی سے ناجائز دولت کمانے کی غرض غداری کے مرتکب ہونے سے ذرا بھی تو شرم محسوس نہیں کرتے ہیں!!!!ان کی جانے بلا سے ملک کے خزانے کو اربوں کھربوںروپوں کا نقصان پہنچے یا عوام کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑیں۔ان سب کی اوپر سے نیچے تک ،تنخواہ کے علاوہ روزانہ کی دھیاڑی سیدھی ہوتی رہنی چاہئے۔ کہ ان کو منصب اسی کارستانی اور غیر قانونی ا مور کی انجام دہی کے لئے ان کے خیال میں اور ان کی ذہنی اپروچ کے مطابق شائد دےدیا گیا ہے۔جس سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے مگر ان اداروں کی عیاشیوں کے عوض انسانی خون کس قدر ارزاں کر دیا گیا ہے۔ کبھی ہمارے اداروں کے بڑے اسٹیک ہولڈرز نے اس بارے میں سوچا ہے کہ یہ اور ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے لوگ کس طرح ملک کے خزانے اورا سکے عوام الناس کی جانوں کی تباہی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ بیالس افراد کے قاتل خوش ،گھر ماتم کدےبنا دئے گئے ہیں ۔ ان لوگوں کے خون کا حساب کون دے گا؟؟؟

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com