وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب کو بہت بہت مبارک ہو۔وہ جو چاہتے تھے وہ ہوگیا۔نوازشریف حکومت سے بچے ،عدالت میں پھنسے کا شکار ہوگئے۔ ہاںالبتہ یہ ضرور ہے کہ عدالت سے ”بیماری ریلیف ” پانے کے بعد بغرض علاج لندن جانے کابغیر مشروط اجازت نامہ بھی پاگئے۔اب لندن کی اُڑان بھی بھرچکے ہیں۔شریف فیملی کے لیے نوازشریف کے حوالے سے یہ عدالت کی جانب سے ایک بہت بڑا ریلیف سمجھا جاتاہے۔اِسے ناموافق حالات میں ایک بہت بڑی کامیابی سے تعبیر کیاجاتاہے۔اِس لیے کہ جس طرح کے کیسزتھے اور جیسے حالات تھے ملک سے باہر جانے کاتصور ہی جان لیوا تھا ۔باہرجانے کااجازت نامہ ملنا اتنا آسان نہ تھا۔ایک جوئے شیر لانے کے مترادف تھا اور ناممکن کو ممکن بنادینے والی بات تھی ۔جس کے لیے شریف فیملی نے بہت پاپڑ بیلے ،حیلے بہانے کیے اور مشکلات سہیں، تب جا کر” حالت بیماری”میں من کی مراد پاگئے۔اب عرب ممالک سے حسب روایت پہلے کی طرح ایک جہاز نما ” اُڑن طشتری”آئی اور اُن کو اُس میں بٹھاکر لے گئی۔جاتے ہوئے نوازشریف کو اللہ حافظ ، یقیناًمیری دعائیں بھی باقی افراد کی طرح اُن کے ساتھ ہیں۔ بندہ ناچیزکی اللہ کے حضور دعا ہے کہ اللہ اُن کو صحت کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔مجھے حیرت ہے شہبازشریف اور اُن پارٹی رہنمائوں پرجو نوازشریف کے ”بیماری ریلیف ”کے حق میںآنے والے فیصلے پر شادمیانے بجارہے ہیں۔
جب عالم تنہائی میں ذہنوں پر زور دے کر سوچیں گے تو اپنی عقل پر ماتم کریںگے اورمحسوس کریں گے کہ اب گیم حقیقتاًاُن کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔انہوں نے کیاگیم کھیلنی تھی حکومت اُن سے گیم کرگئی ہے اور یہ کہ پہلی باری ہی ٹھیک تھی جس میں حکومتی سطح پرصرف اور صرف پیسوں کی شرط تھی اورکچھ نہیں۔اب کی عدلیہ باری میںتوپیسہ نہ لے کر سب کچھ ہی غیر محسوس طریقے سے رکھ لیاگیاتھاجس کی سمجھ آنے والے چند دنوں میں شریف فیملی کو آجائے گی جب اُن سے چمچوں کڑچھوںکا رش کچھ کم ہوگاتب انہیں احساس ہوگا کہ حکومتی پیکج مناسب تھاعدالتی پیکج تو سب کچھ بہاکے لے گیا۔حکومتی آفرزمیں تو صرف پیسہ جارہاتھا باقی تو سب مزے تھے ۔آتے نہ بھی تو کیاہوناتھا زیادہ سے زیادہ پیسہ مرجاتامگر اب عدلیہ کی طرف سے رعایت پرتو پیسہ بھی محفوظ نہیں نظر آتااور خود سب بھی حکومت وعدلیہ کے زیرتسلط آگئے۔اب کے پھنسے شائد چھوٹے کہیں جاکر۔۔۔حکومتی من سلویٰ ٹھکراکر عدالتی مسور اور پیاز کھانے والوں کو بہت جلد احساس ہوجائے گاکہ اُن کے ساتھ گیم ہوچکی اور وہ بھی ایسی کہ جس کی غضبیت کا آپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔پنجروں سے چھوٹ جانے کے خواہشمند جوش ِپھرپھراہٹ میںاپنے پر ہی کتروابیٹھے ہیں۔کچھ کہنے اور بولنے کے لائق تو پہلے ہی نہ تھے۔ حکومتی پیشکش میں تو ”یہ جاوہ جا”والا معاملہ بھی تھا اور بعدازاں بہت سے فائدے بھی تھے جبکہ عدالتی پیش رفت میں ”اب جاپھرآ”والا سلسلہ ہے۔جس میں فائدے بالکل نہیں نقصان ہی نقصان ہے۔
حکومتی اجازت کی صورت میں توپرندے کی طرح اُڑکر چہچہااور گنگنابھی سکتے تھے مگر عدالتی اجازت کی صورت میں ہلکی سی سرسراہٹ بھی نہیں کرسکتے چہچہانایا گنگنانا تو دور کی بات ہے۔اب لندن بغرض علاج تو رہ سکتے ،موج مستیاں اور سیریں نہیں کرسکتے،علاج کی غرض سے ہسپتال کے بستر پر پڑے سیرپ اور دوائیاں تو کھاسکتے ہیںمگر دوران علاج برگر، شوارما، پیزا، بھالوشاہی ،تکہ کباب اور پائے نہیں کھاسکتے،مارکیٹوں میں گھوم نہیں سکتے،سڑکوں پر مٹرگشت نہیں کرسکتے،خوبصورت مقامات پر فوٹو سیشن اور سلفیاں نہیں لے سکتے جبکہ حکومتی احکامات پر عمل کرنے کی صورت میں سب سہولتیں برابرمیسر تھیں،سب چلتا،اسحاق ڈاربھی بنے نظر آتے تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتاتھامگراب معاملہ اور ہے۔اب کسی بھی OVER ACTIVITYپر بازپُرس ہوسکتی ہے۔ واپسی کا بلاوہ آسکتا ہے۔بیماری ریلیف میں توسیع کا معاملہ رک سکتاہے۔کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اب توایک ایک قدم پھونک پھونک کر چلنے والا معاملہ ہے۔
برگر ،نہاری اور پائے بھی کھاناہوںگے تو لوگوں اور کیمروں سے بچ کر کھانا ہوں گے۔اب تو اپنی ہر حرکت کی بھنک سرکار پر نہ پڑے سے بھی بچناہوگاجو چیکنگ کے بہانے آپ کے آس پاس کسی نہ کسی روپ میں کھڑی ہوگی۔ اب احتیاط لازم ٹھہری ورنہ سارا سکھ چین اور لندن علاج والا معاملہ کھٹائی میں پڑسکتا ہے اور عیش و نشات بھی چھن جانے کا خطرہ برابرموجود ۔جب ہوش پر جوش اور عزت پر پیسہ غالب آجائے توآزادی میں بھی غلامی کے فیصلے ہوہی جایا کرتے ہیں۔حکومت سے بچنے اور عدلیہ میں پھنسنے والا معاملہ بھی کچھ یوں ہی ہے حکومت کو پیسہ نہیں دیا، قانون وانصاف کے ہاتھ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دے دی جس کے فائدے اور نقصان کی اہمیت آنے والے دنوں میں شریف فیملی پر آشکارہ ہوجائے گی جب مشکلات بڑھے گی تب اِس فیملی کو احساس ہوگاکہ حکومتی معائدہ چھوڑکر عدالتی فیصلہ میں جاکر اِن سے کتنی بڑی بھول ہوئی سارا سامان عیش وعشرت بھی گیا اور شرمندگی و ندامت بھی سارے جہان کی مول لے لی اور پایابھی کچھ نہیں۔ملابھی تو عدلیہ کی سخت پابندیوں میں صرف علاج کاپروانہ اور کچھ نہیں۔حکومتی معائدہ میں جاکر شریف فیملی نہ بھی آتی تو سارا پریشر حکومت واداروں پر آتامگر اب معاملہ عدلیہ میں ہے۔ نہ آنے پر توہین عدالت اور بہت کچھ ہوسکتا، ہے ۔نہ آنے پر ججززکے موڈبدل گئے تو ساراکیادھرا چوپٹ ہوکر رہ جائے گا اور پھر واپس لائے جانے پربھی سب کچھ دھڑم ۔ن لیگ کے لیے ہر طرف پریشانی ہی پریشانی ہے۔
روشنی کی کوئی کرن بھی کہیں بھی سیدھی پڑتی دکھائی نہیں دیتی جوکوئی اُمید بندھی تھی وہ بھی خود ہی سے بجھابیٹھے ہیں۔اب کیا ہوسکتاہے ۔سکون نام کوبھی نہیں ہے اور ن لیگ جماعت سمیت اپنے سربراہ کے ایک دائرے کے گرد ہی مسلسل چکر کاٹ رہی ہے۔یہ حکومت وقت کے سبب ہویا معزز عدلیہ کے ذریعے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔پانامہ سے شروع ہوا سفر بقول ریاست ومقننہ کے ابھی چل رہا رکایا تھمانہیں،بس تھوڑی دیر کے لیے ضروری بریک آجاتی ہے ۔تھکے ہوئے افراد کو پھر سے تازہ دم کرنے کی سعی کی کوششوں میں۔ تاہم انکل ٹام کہتے ہیں کہ جوکچھ تم کہہ رہے یابیان کررہے ہو ،ایسی کوئی بات نہیںہے۔شریف فیملی سمجھتی ہے کہ وہ عدالتوں سے سزایافتہ ہے۔عدالتوں سے ہی ریلیف پاسکتی ہے۔حکومتی ہمدردیوںاور پیشکشوں کی اُسے قطعاًکوئی ضرورت نہ ہے۔وہ اپنے ریلیف اور رہائی کے لیے عدلیہ کی طرف ہی دیکھتی ہے اور اُس سے ہی انصاف کی اُمید رکھتی ہے اور یہ کہ معاملہ عدلیہ میں ہونے کی وجہ سے عدلیہ سے ہی انہیں ریلیف،فوائد یا رعائت مل سکتی ہے۔اُن کی بہتری ، بقاء اور کیسوں سے رہائی کے لیے عدلیہ کا پلیٹ فارم ہی سب سے بہتر اور اچھا قدم ہے۔
اِسی لیے انھوں نے حکومتی پیکج کو نہیں اپنایا بلکہ اپنے لیے ریلیف لینے کے لیے عدلیہ کی چوکھٹ پر دستک دی ہے۔جو حکومت کے پاس جانے سے کچھ بہتر نہ پاکر عدلیہ پاس جاکر کچھ تھوڑا بہت ہی پالینا بہتر ہے اور یہ کہ وہ بہت جلد تمام کیسوں سے بھی بری ہوجائیں گے۔انکل ٹام مزید اصرار کرتے کہتے ہیں کہ اِس وقت کے جو ملکی سیاسی حالات وواقعات میں دیکھ رہاہوں مستقبل میں مجھے تمام تر ”ناں” کے باوجود شریف برادران مزید ریلیف پاتے نظر آرہے ہیں اور یہ کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاید کسی ”کرشمے”یا ”معجزے”کے نتیجے میںتمام ترکیسوں سے کوئی نہ کوئی طریقہ اپنائے باعزت بری بھی ہو جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ عرب اُڑن طشتری کے آنے کے بعد بارہا تاریخ نے دیکھاہے کہ شریف فیملی کے لیے اُس کے بعد آسانیوں کے راستے انتہائی جادوئی طریقے سے اچانک ”چھومنتر”کرتے کھل جاسم سم کی طرح اُوپن ہوجاتے ہیں۔اب کے بار بھی اِس عرب اُڑن طشتری کے آنے کے بعد یوں لگ رہا ہے کہ شریف فیملی کے لیے حالات اب بہتر ہوئے یکسر کسی کرشماتی ذرائع سے ہر جگہ سے بدلنے سے لگے ہیں۔سیاسی و صحافتی علم نجوم کے ماہر بھی کچھ اِس طرح کی ہی رائے رکھتے ہیں۔باقی اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ آگے جاکر کیا ہونے والا ہے۔
فی الحال فلم کی کہانی سے تویہی پتا چلتا ہے کہ تمام تر مشکلات میں گھرا ہوا ”پاکستانی ایلین”نوازشریف عرب قوتوں کی ہمدردی،دوستی ،لوب اور بھرپور تعاون کے باعث اُن کی ہمیشگی اُڑن طشتری میں سوار ہوئے محفوظ ہوچکااور جاتے جاتے آخری ملاقات کیے پھر ملیں گے کے وعدے کے ساتھ اُڑان بھرچکاجو فلم کے مطابق اُس کے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی محفوظ واپسی کے لیے کہیں پکڑانہ جائے انتہائی ضروری تھا۔جاتے ہوئے بہت خوبصورت سوٹ وبوٹ پہنے کمال حیرانگی والا چہرہ بنائے پاکستانی پکڑنے والے سسٹم میں موجود چھپی قباحتوں ، ناکامیوں اورحکومتی وعدالتی سسٹم کتنا پائیدار کوآئینہ اورانگوٹھا دکھاتے الوداع کہتے دکھائی دیتے ہوئے دور ہوتا جارہاتھاکچھ دیر کے لیے ،مناسب وقت تک یا پھرہمیشگی کے لیے بتائے بغیرجارہاتھا۔اب اگلے نظارے کے لیے دیکھتے ہیں کہ اُن کے ہر کاموں کی رازدان ،دوست،اُن کو اِس حال تک پہنچانے والی اُن کی دخترمحترمہ مریم بی بی اُن کے جانے کے بعد پاکستان میں طاقت پکڑتی کہ کمزور پڑجاتی۔