تحریر : اسرار احمد ترگڑ چین پاکستان کا قدیم اور با اعتماد دوست ہے جس نے ہمیشہ کڑے وقت میں پاکستان کا کھلا ساتھ دیا ہے۔ 2015 میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے وقت چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے اور اس کے بعد ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز ہوا۔آغاز میں چائنہ نے چالیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا جس میں گوادر پورٹ کی تعمیر اور آپریشن سمیت سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھایا جانا تھا تاہم اب یہ رقم چون بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں توانائی کے بدترین بحران کے خاتمے کےلئے سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے۔ مگر اس سرمایہ کو لیکر لوگوں کے ذہنوں میں عجیب وسوسے اور خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔
دسمبر 2016 کے آخری ہفتے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں سی پیک سے متعلقہ جوائینٹ کمیٹی کا اجلاس بیجنگ میں منعقد ہو اجس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک بھی ان کے ہمراہ تھے جس کا مطلب ہے کہ پوری قوم سی پیک منصوبوں پر اعتماد کرتی ہے اور اس کے ثمرات سے باخوبی واقف ہے۔
اس موقع پر لاہور اورنج ٹرین کی طرح کراچی،پشاور اور کوئٹہ سرکلر ریلوے کے پروجیکٹس کو بھی سی پیک میں شمولیت کی نوید ملی ہے جبکہ چنیوٹ سٹیل سمیت کل تیس منصوبوں کو بھی سی پیک کی سرمایہ میں شامل کیا گیا ہے جو بلاشبہ بہترین فیصلہ ہے۔ چاروں صوبوں، گلگت بلتستان،آزاد کشمیر کے علاوہ فاٹا میں بھی اقتصادی زونز بھی بنیں گے۔ چائنہ گورنمنٹ سکالر شپس کے ذریعے اس وقت بڑی تعداد میں پاکستانی سٹوڈنٹس چائنہ میں زیر تعلیم ہیں اور سی پیک کے تحت سکالر شپس کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا جس سے پاکستانی سٹوڈنٹس کو بین الاقوامی اعلی اور معیاری تعلیم سکالر شپ پر حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔
C Pack Project
بلاشبہ سی پیک کے ذریعے ملک میں معاشی انقلاب آئے گا۔روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے خزانے کی حالت بھی بہتر ہوگی اور ہم غیرملکی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے چنگل سے بھی جان چھڑانے میں انشاءاللہ کامیاب ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ ورک فورس کی اعلیٰ و معیاری تربیت اور بین الاقوامی طلب میں اضافہ ہوگا اور زرمبادلہ کے حصول میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ٹرانسپورٹیشن کی بہترین سہولیات میسر ہوں گے۔ریلوے کے پرانے اور سست سسٹم کی اپ گریڈیشن سے بھی جان چھوٹے گی اور تیز رفتار اور بہتر سفر کی سہولت ملے گی۔گوادر پورٹ کی تعمیر پر تیزی سے کام جاری ہے اور بحری جہازوں کے ذریعے درآمد اور برآمد کا آغاز ہو چکا ہے گزشتہ ماہ چینی سے مال بردار ٹرکوں کے قافلے نے گوادر پر سامان کا تبادلہ کیا۔پاک فوج گوادر سمیت سی پیک منصوبوں کی حفاظت کےلئے پرعزم ہے۔اس حوالے سے گوادر کے قریب بھارتی آبدوز کو بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
اس کے باوجود خدشات اپنی جگہ پر موجود ہیں جن کا ذکر بھی ضروری ہے ۔سی پیک منصوبوں کی حفاظت اور انکی تکمیل کیسے ممکن ہوگی جبکہ ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال ہے۔بعض حلقوں کے مطابق حکومت بالخصوص پنجاب حکومت جس طرح چائینیز کمپنیوں کو اراضی کی الاٹمنٹس کر رہی ہے اور سرمایہ کاری میں خصوصی سہولیات بھی دے رہی ہے گویا مستقبل میں یہ کمپنیاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح یہ کمپنیاں بھی پاکستان اور عوام پرخدانخواستہ حکمرانی کی خواہش کی تکمیل کرنے لگے گیں۔
اس کے ساتھ ساتھ مقامی لیبر کو نوکریوں سے نکال کر غیرملکیوں کو رکھا جائے گا۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چائیے کہ پاکستان کے دشمن ممالک کو سی پیک منصوبے کسی نظر بھی نہیں بھا رہے اور وہ ان کو ثبوتاز کرنے کےلئے اپنے منفی اور پروپیگنڈا کرنے میں کوئی بھی اقدام اٹھانے سے باز نہیں آ رہے اور نا ہی آئیں گے۔چنانچہ اس منصوبے کا مثبت تااثر رکھنا چائیے کیونکہ یہ پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے۔