تحریر : سید کمال حسین شاہ پاکستان اقتصادی راہداری، معاشی، ترقی اور اقتصادی روابط کے حوالے سے پورے خطے کے لیے فائدہ مند ہے۔ اقتصادی راہداری پاکستان اور چین کا دو طرفہ پراجیکٹ نہیں ہے بلکہ اس سے جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کو ملائے گاَ راہداری سے چین یورپ اور افریقہ تک رسائی حاصل کر پائے گا اور پاکستان اس حوالے سے سمندری اور فضائی روٹس کے ذریعے یہ رسائی ممکن بنائے گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جو جلد پائیہ تکمیل تک پہنچ جائے گا جبکہ تیسرا مرحلہ بھی مئی 2017ء میں مکمل ہو جائے گا۔ گوادر پورٹ دنیا میں سب سے گہری بندرگاہوں میں سے ایک ہے جس کے مکمل طور پر فعال ہونے سے پاکستان سمیت خطے اور دنیا بھر میں خوشحالی آئے گی۔ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ بھی اسی صوبے کو پہنچے گا جبکہ اقتصادی راہداری منصوبے کے ذریعے دیگر صوبوں کو بھی فوائد حاصل ہونگے ۔ گوادرمیں فری ٹریڈ زون، اسپیشل اکنامک زون، کوسٹل ہائی وے بھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔ قراقرم ہائی وے کو بہتر بنانے کے ساتھ موٹر وے ایم فور پر بھی چینی انجینئرز دن رات کام میں مصروف ہیں، جبکہ ریل ویز اور لائٹ ریلز کی اپ گریڈیشن بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے ۔ شاہراہ قراقرم، لاہور کراچی موٹر وے اور فائبر کیبل کا رابطہ اہم منصوبے ہیں۔
پاک چین اکنامک کوریڈور کے لئے صوبوں نے مختلف مقامات پر اکنامک زون بناہے گے ۔عظیم الشان منصوبے کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں مخصوص اقتصادی زونز اور انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کی جائیں گی جن میں چین کے علاوہ دنیا بھر کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کرسکیں گے اور ان صنعتوں میں تیار کی جانے والی مصنوعات کی دنیا بھر میں برآمدات کی جائیں گی جس سے پاکستان کی صنعتی و اقتصادی نشوونما میں مدد ملے گی… پاک چین اقتصادی کوریڈور منصوبہ کی تکمیل سے پاکستان نہ صرف اقتصادی طور پر مضبوط اور خوشحال ہوگا بلکہ یہ کوریڈور پاکستان کی مضبوط دفاعی لائن بھی ہو گا۔
سی پیک کو تاجکستان اور کرغیزستان سے ملائیں گے افغانستان سے چمن کے راستے ملائیں گے ۔ منصوبے سے خطے میں تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی عالمی اہمیت کو بھارتی میڈیا نے بھی تسلیم کر لیااور اس منصوبے کو موجودہ صدی کا زبردست گیم چینجر منصوبہ قراردے دیا، اگر رابطہ سازی،نئی جیو ااسڑٹیجک حالات کی بنیاد ہے تو راہداری منصوبہ کوموجودہ صدی کا سب سے زبردست منصوبہ قراردیا جا سکتا ہے ۔ ون بیلٹ ون روڈ کے تحت سی پیک انفراانسٹرکچر کا ایک ایسا بین البراعظمی منصوبہ ہے جو کہ موثر طریقے سے پاکستان کو یوریشیا کا لاجسٹکس مرکزبنائے گاجس سے یہ عالمی معیشت کا محور ثابت ہوگا۔ ایک سڑک ،ایک پٹی ،ایک ایسی طاقت بن چکاہے جس کا اگلی دہائی بلکہ اس سے بھی آگے تک دنیا پر راج چلے گا’۔ماہرین کا مانناہے کہ چین کی نئی شاہراہ ریشم تعمیر ہونے سے امریکہ معاشی قیادت سے محروم ہوجائے گا۔ماہرین کا کہناہے کہ مستقبل قریب میں گوادر کاشغر لائن سے روزانہ ایک کروڑ ستر لاکھ بیرل خام تیل کی ترسیل ہواکرے گی۔اور علاقائی ملکوں میں تجارتی تعاون کی صورت میں دنیا کو50فی صد تیل کی فراہمی اسی ریلوے لائن کے ذریعے ہوگی۔چینی حکمت عملی ‘روڈ اور بیلٹ ‘میں پاک چین اقتصادی راہداری عالمی اقتصادی ترقی کے چار بڑے مراکز چین،جنوبی ایشیا،وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو مربوط کرے گی۔اس طرح سی پیک سے براہ راست 3ارب لوگ فائدہ اٹھائیں گے ۔سی پیک منصوبہ 41فارمیٹ پر مکمل کیا جائے گا۔یعنی گوادر،توانائی،صنعتیں اور بنیادی تنصیبات (انفراسٹرکچر)مل کر اقتصادی راہداری تشکیل دیں گے۔
نیو ورلڈ آرڈر” اپنی موت آپ مرگیا بلکہ یونی پولر دنیا کا دور بھی ختم ہوا۔اب کثیرقطبی دنیا وجود میں آرہی ہے ۔اس دور کا آغاز جنوب مغربی ایشیا سے ہوچکاہے ۔” چین پاک اقتصادی راہداری” کے تناظر میں مستقبل کا نقشہ صاف دیکھا جاسکتاہے ۔یہ راہداری درحقیقت دنیا کے مستقبل کا روڈ میپ ہے ۔اس منصوبے کے تحت پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہرگوادر کی بندرگاہ کو چین سے ملایا جائے گا اور اس راستے سے چین اپنی تجارت کو فروغ دے گا۔ا س راہداری کے ذریعے جنوبی ایشیا کا پورا خطہ تجارتی سرگرمیاں استوار کرسکتاہے ۔پاکستان کے سابق امیر البحر ،ایڈمرل افتخار سروہی کے الفاظ میں گوادر بندرگاہ دولت کا دہانہ ہے۔
سی پیک پاکستان کے لیے ’تاریخی‘ ثابت ہو سکتا ہے ، چین کے لیے یہ ملک کی عالمی اقتصادی قوت کو بڑھانے کے عظیم تر منصوبے کا حصہ ہے ۔ چینی حکام راہداری کے منصوبے کو وسیع تر پالیسی کا ’پہلا منصوبہ‘ قرار دیتے ہیں۔ ’ایک پٹی، ایک سڑک‘ جس کا مقصد چین کو اس کی ایشیا، افریقا، یورپ اور اس کے آگے مزید منڈیوں سے جوڑنا ہے ۔ نئی شاہراہِ ریشم بحرِ ہند اور جنوب چینی سمندر میں چین کی بحری آمد و رفت کو محفوظ بنانے کے لیے وسط ایشیا اور سمندری راستے کے ذریعے چین کو یورپ سے منسلک کرے گی۔ سی پیک چین کو دنیا کی تقریباً نصف آبادی سے جوڑ دے گا۔ گوادر کے راستے بحرِ ہند تک رسائی چین کے بحری جنگی بیڑوں اور تجارتی جہازوں کو آبنائے ملاکا سے گزرنے کی پابندی سے آزاد کر دے گی۔ اور یوں چین اپنے ’ملاکا مخمصہ‘ سے جان چھڑا لے گا۔گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور اس کے اندرونی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر کی بہتری چین کو خلیجِ اومان اور بحیرۂ عرب میں اپنی مستقل بحری موجودگی قائم رکھنے میں مدد دے گی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نئی شاہراہِ ریشم کی تعمیر وسیع تر وسط ایشیائی خطے میں سرمایہ کاری اور اثر و رسوخ کی آبیاری کے لیے چین اور بھارت کے درمیان اور کسی حد تک چین اور امریکا کے درمیان بھی جاری مقابلہ بازی کو مزید تیز کر دے گی۔سِلک روڈ اکنامک بیلٹ نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ علاقائی ممالک کو بھی پہلی دفعہ منسلک کرے گی، ترقی میں معاون ثابت ہوگی اور امن کو فروغ دے گی۔