کہاوت ہے کہ ایک دوکاندار نے نجانے کس مصلحت کے تحت اپنی دوکان پانچ لاکھ روپے کے عوض فروخت کر دی جس کی اطلاع پا کر ایک اور گاہک مذکورہ دوکاندار کے پاس پہنچا اور اُس نے مذکورہ دوکان چھ لاکھ روپے کے عوض خرید لی اس واقعہ کی اطلاع جب مذکورہ دوکان کے پہلے خرید کندہ کو ہوئی تو اُس نے احتجاجا اس واقعہ کی اطلاع صدر بازار اور اُس کی پوری کابینہ جو حاجی اور الحاج تھے کو دی تو صدر بازار اور اُس کی پوری کابینہ نے مذکورہ دوکاندار کو بلا کر کہا کہ تم نے اپنی مذکورہ دوکان اگر پانچ لاکھ روپے کے عوض فروخت کر دی تھی تو پھر دوبارہ مذکورہ دوکان چھ لاکھ روپے میں فروخت کر کے تم نے بے ایمان ہونے کا ثبوت دیا ہے آ خر تم نے ایسا کیوں کیا ہے جس پر مذکورہ دوکاندار نے صدر بازار اور اُس کی پوری کا بینہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہاں ہاں میں ایک بے ایمان ہوں میں نے آج ایک لاکھ روپے کی بے ایمانی کی ہے لیکن تم اور تمھاری کا بینہ تو ایماندار ہیں تم حلفا کہو کہ تم نے آج ایک روپے کی بھی بے ایمانی نہیں کی یہ سن کر صدر بازار اور اُس کی پوری کا بینہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کر گئی بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے مذہبی و سیاسی رہنمائوں کے علاوہ بیوروکریٹس کی ہے جو حرام کی کمائی کے بل بوتے پر اس ملک کے آ سودہ قانون کو طوائف کا کو ٹھا بنانے میں مصروف عمل ہیں جن کے ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصافیوں کی وجہ سے آج اس ملک کی غریب آ نکھ خون کے آنسو روتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
در حقیقت یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے کا لے کرتوتوں کی وجہ سے اگر صبح گرفتار ہوتے ہیں تو شام کو باعزت بری ہو کر عوام کے سامنے ہیرو بن جاتے ہیں جس کا اندازہ عوام کو بخوبی ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک امیر ترین شخص کی محفل میں مذہبی و سیاسی رہنمائوں کے علاوہ چند ایک اعلی افسران موجود تھے جس پر امیر ترین شخص نے حاضرین محفل کو متوجہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ جو شخص میرے سوال کا صحیح معنوں میں جواب دے گا میں اُسے دس کروڑ روپے نقد کے علاوہ کوٹھی اور کار کا انعام دوں گا یہ کہہ کر امیر ترین شخص نے مذہبی رہنما سے کہا کہ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ ایک مذہبی رہنما ہیں آپ کا سیاست جو کہ ایک جھوٹ کا پلندہ ہے سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں پھر بھی آپ سیاست دان بن جاتے ہیں آ خر کیوں یہ سننے کے بعد مذہبی رہنما نے امیر ترین شخص کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب ذاتی مفاد کا کھیل ہے۔
مذہبی رہنما بننا بھی ایک سیاست ہے جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جلسے جلوس نا سمجھ عوام نکالتی ہے اور ہم جیسے مذہبی رہنما اپنی سیاست چمکانے کیلئے مذہبی منافقت پھیلا کر دنگا فساد کروا کر عوام کے ہیرو بن کر باآ سانی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اس دوران عوام ہمیں فنڈز بھی مہیا کرتی ہے اور ووٹ بھی بعد ازاں ہم حکومتوں کو بلیک میل کر کے ہم اپنے ذاتی مفاد خواہ وہ جائز ہوں یا پھر نا جائز حاصل کر کے خوشحال زندگی گزارتے ہیں اس سے بھی بڑھ کر سچائی یہ ہے کہ جو افراد مذہبی فسادات میں مر جاتے ہیں ہمیں اُن کے مرنے کا کوئی دکھ نہیں ہوتا بلکہ خوشی ہوتی ہے چونکہ ہم اُن کے مرنے پر بھی اپنی سیاست چمکاتے ہوئے ہیرو بن کر اور زیادہ پا پو لر بن جاتے ہیں اور یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہماری وراثتی زمین صرف اور صرف چند مرلوں پر ہی محیط تھی لیکن اب مذہبی و سیاسی رہنما بننے کے بعد اربوں روپے زمین کے مالک بن کر عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں یہ سننے کے بعد امیر ترین شخص نے سیاست دان سے پوچھا کہ تم تو پہلے ٹھیکیداری کرتے تھے پھر تم سیاست دان کیسے بن گئے جس پر سیاست دان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ ٹھیکیداری کے دوران میں محکمہ ہائی وے بلڈنگ وغیرہ کے نیچے سے لیکر اوپر تک بالخصوص سیاست دانوں تک بھتہ دیکر اپنے تعمیراتی کاموں کے بل پاس کرواتے تھے لیکن اب میں سیاست دان بن کر صرف پچیس تیس کروڑ روپے الیکشن کے دوران خرچ کر کے اربوں روپے تعمیراتی کاموں کی مد میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساز باز ہو کر از خود ہڑپ کر جاتے ہیں۔
درحقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ تعمیراتی کام صرف اور صرف کاغذوں تک محدود ہوتا ہے عملی طور پر کچھ نہیں جس کا واضح ثبوت ضلع جھنگ ہے یہ سننے کے بعد امیر ترین شخص نے اعلی افسران کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ تم نے تو حلف اُٹھایا ہوتا ہے کہ ہم اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرے گئے اس کے باوجود آج ملک کے تمام ادارے کرپشن کی لپیٹ میں ہیں آ خر ایسا کیوں یہ سن کر اعلی افسران نے بڑی ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ سب ان مذہبی و سیاسی رہنمائوں کی خصوصی شفقت کا نتیجہ ہے یہ اپنے دور اقتدار میں ہم سے ہر جائز و نا جائز کام کرواتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہم بھی انہی کی طرح کالے کرتوتوں میں ملوث ہو کر رہ جاتے ہیں سچائی تو یہ ہے کہ کرپشن اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک جاتی ہے سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ آج جو ملک و قوم لاتعداد پریشانیوں میں مبتلا ہے یہ صرف اور صرف ان مذہبی و سیاسی رہنمائوں کے کالے کرتوتوں کا نتیجہ ہے انھیں اگر نزلہ و بخار ہو جائے تو یہ اپنا علاج امریکہ جیسے ملکوں میں کرواتے ہیں۔
جبکہ دوسری جانب ان کے ووٹر اور سپورٹر بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب بے بسی اور لا چارگی کی موت مر جاتے ہیں جس کا واضح ثبوت تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ سٹی ہے جہاں پر تعنیات آرتھو پیڈک سر جن قیصر علیانہ جیسے ڈاکٹر و لیڈی ڈاکٹرز جو غریب مریضوں کے اعتماد کا قتل عام کر رہے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مذکورہ ہسپتال کی چلڈرن سپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تین سالہ بچے حسن علی کا معدہ واش کرنے سے قاصر ہو وہ بھلا دیگر علاج اور آ پریشن کیسے کر سکتی ہے اور یہی کیفیت مذکورہ ہسپتال کے آرتھو پیڈک سرجن قیصر علیانہ کی بھی ہے جو ایک غریب مریض جو ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹ جانے کے باعث ٹی بی کا مریض بن کر رہ گیا تھا کا از خود علاج کرنے کے بجائے الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد ریفر کر دیا لیکن اب اُس کا علاج ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ میں جاری ہے۔
یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر ز کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا چونکہ یہ اوپر سے لیکر نیچے تک سب کے سب دھما دھم مست قلندر ہیں شنید ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان جسے عوام کی بھاری اکثریت سے حمایت حاصل ہے نے اپنے چند ایک وزرا کو تبدیل کر دیا ہے جسے سننے کے بعد ہم سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گئے کہ چہرے بدلنے سے نظام میں تبدیلی نہیں آ سکتی اگر عمران خان تبدیلی چاہتے ہیں تو انھیں قومی لٹیروں کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے ایک پر تکلف محفل میں انھیں زہر ملا کھانا کھلا کر اذیت ناک سے ہمکنار کرنے کے بعد کسی خانسامے کو گرفتار کر کے بعد ازاں اُسے آ زاد چھوڑ دینا چاہیے چونکہ ویسے بھی ہماری عوام کسی بھی المناک واقعے کو بھول جانے کی عادی ہے جیسے شہید ملت ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کے قاتل کو۔