مصر (جیوڈیسک) مصر تبدیلی کی علامت مصر کا تحریر اسکوائر ایک بار پھر کروٹیں لینے لگا۔ گذشتہ روز یہ احتجاج ایک امریکی شہری اور صحافی سمیت سولہ افراد کو نگل گیا۔ مصر میں جاری صدر مرسی کے خلاف تحریر اسکوائر سے شروع ہونے والا احتجاج لہو میں نہا گیا۔
مصری صدر مرسی کی جانب سے قوم سے خطاب کے دوران مستعفی نہ ہونے کے اعلان کے بعد قاہرہ یونیورسٹی میں طلبا بپھر اٹھے اور انہوں نے صدر مرسی کے حامیوں کی ریلی پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔
مصری صدر نے ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ جمہوریت کی بقا اور تحفظ کے لیے ہرگز مستعفی نہیں ہونگے۔ آئینی اور منتخب صدر ہیں، کسی کی ڈکٹیشن نہیں چاہئیے۔
دوسری جانب مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح نے شہریوں کی ہلاکت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کی دفاع کے لیے اخری گھڑیاں شروع ہو چکی ہیں۔ عوام کے تحفظ کے لیے جان قربان کر دیں گے۔ صدر مرسی نے اپنے خطاب میں عوام سے اپیل کی کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ طلبا اور عوام کی جانب سے احتجاج نے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ اور سوئز کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فوج کی جانب سے حکومت اور اپوزیشن کواڑتالیس گھنٹوں کے الٹی میٹم کے بعد صورت حال مزید تنا کا شکار ہوگئی ہے۔
مصری صدر نے عسکری قیادت سے فوجی مداخلت کا الٹی میٹم واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر شمال مشرقی شہر سوئز میں فوجی گشت اور کسی بھی ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے جنگی مشقیں جاری ہیں۔