تحریر : رقیہ غزل پانامہ لفافہ جونہی کھلا تو ہم نے لکھ دیا تھا کہ ”اے پیڑا وی جر جائوو” اور وقت شاہد ہے ویسا ہی نظر آرہا ہے یہاں تک کہ جو صحافی حضرات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بہت بڑی تبدیلی کا مژدہ سنا رہے تھے وہ بھی یو ٹرن لیتے دکھائی دے رہے ہیںیہ تو ہونا ہی تھا ہمارے ملک میں جب بھی تھیلے کھلے ہیں ہمیشہ ”بلی ”ہی نکلی ہے اور جیت اسی کی ہوئی ہے جس کے ہاتھ میں تھیلا ہوتا ہے اب رہ گئی بات اپوزیشن کی تووہاں بھی چکنے گھڑوں کی کمی نہیں ہے جو موقع پاتے ہی اپنی ہی جماعت کے لیڈران کو ہاتھ دکھا دیتے ہیں لہذا ایسا کچھ بھی ہونے کی امید نہیں جو حالات کی کایاپلٹ دے ویسے اگر مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے کل کلاں کو سیاست نیا رخ تبدیل کر لے کیونکہ ملک کے کھلے بد خواہ بے نقاب ہو رہے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کو امان حاصل ہے کیونکہ یہاں بھی حکومت اور اداروں کی مصلحتیں اور مفادات حائل ہیں۔
یہی مفادات ہی تو ہیں کہ جن کی بنا پر ہمیشہ جرائم پیشہ افراد کو پہلے بھی ٹکٹ دئیے گئے اور اب بھی ایسے ہی اکثر افراد کو عزت و تکریم سے نوازا جا رہا ہے اورانھیں پارٹی رکنیت بھی حاصل ہے اس لیے مجموعی طور پراجتماعی احتساب خواب و خیال کے سواکچھ بھی نہیں ہے اور جو احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں ان کی اپنی دستاریں بھی احتساب کے قابل ٹھہری ہیں چونکہ اس بہتی گنگا میں سب ہاتھ دھو رہے ہیں اس لیے ہر تحریک جہاں سے اٹھتی ہے وہیں ختم ہو جاتی ہے اور عوام کو ملتا ہے صرف ٹیکسوں کا نیا بوجھ ،مہنگائی کا طوفان اور نئی تحریک کا اعلان ! شنید ہے کہ اب آصف علی زرداری اس ٹوہ میں ہیں کہ میاں صاحب کوئی ”بڑی غلطی” کریں جس سے پیپلز پارٹی کو سنبھالاملے کیونکہ ”اے واری توا ہڈی تے اگلی واری ساڈی ” کا معاہدہ ڈانواڈول ہوتا نظر آرہا ہے۔
نون لیگ اپنے تمام پتے کھیل چکی ہے جانچنے کو تو پوری بساط پوری طرح انہی کے ہاتھ میں ہے مگر اقتدار ایسی چیز ہے جس میں معمولی غلطی کی بھی گنجائش نہیں ہوتی بلاشبہ اقتدار قسمت کا کھیل ہے اور وہ چند خوش نصیب ہی ہوتے ہیں جن کو قسمت اور موقع ایک ساتھ ملتا ہے ورنہ اکثرموقع ملے تو قسمت ساتھ نہیں دیتی اور جب قسمت ساتھ ہو تو موقع میسر نہیں ہوتاجیسے تحریک انصاف کے ساتھ ہورہا ہے پھر بھی چند جلد باز ، خوش فہم اور حکومت ہمدردتبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے حتمی پیشین گوئی کی جا چکی ہے کہ اگلے پانچ سال بھی نون لیگ کے ہیں ہمارے اکثر دانشوران بھی افسانے گھڑنے میں ماہر ہیں اور روز و شب الیکٹرانک میڈیا پر کاریگر سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھک سجائے بیٹھے رہتے ہیں چونکہ ان کی دانش بھی کسی نہ کسی طور رہن ہوتی ہے اس لیے اکثریتی بیٹھکوں کا اسکرپٹ جانبدار ہی ہوتا ہے۔
Story
یہی وجہ ہے کہ ان کی الف لیلائی کہانیاں” رات گئی بات گئی” والی ہیں کیونکہ وہ بیچارے تو اپنے پیٹ کے ہاتھوں مجبور ہیں ویسے ان کی کاریگری بھی مجبوری ہے کیونکہ اس دنیا میں ہر جنگ اور ہر جیت ”روٹی ” کے لیے ہے اس لیے ان کی باتوں پر کان دھرنے والے کم ہیں اور ان کو قلم کی حرمت یاد دلانے والے زیادہ ہیں ویسے بھی تاحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ زمینی حقائق جو بھی ہوں مگر یہ طے ہے کہ اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اوروہ بے شک بے نیاز ہے اور ڈھیل بھی دیتا ہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ جب دکھے اور لٹے ہوئے عوام کی آہ سنتا ہے توشاہوں کیلئے زمین کم پڑ جاتی ہے یہ ایان علی والی آہ نہیں جس کا ذکر ایوب کھوسہ نے کیا تھا کہ” چوہدری نثار ایان علی کی” آہ ”سے ڈریں ۔”بظاہر یہ مذاق ہی لگتا ہے مگر اس مذاق میں بھی ایک پیغام ہے کہ ہمارے ہاں ”خوف الہی ”نا پید ہو گیا ہے اگر ایک ریڈ ہینڈڈگنہگار انسان کی آہ کا خوف دلایا جا سکتا ہے تو ارباب اختیار ذرا سوچیں کہ اٹھارہ کروڑ کی آہوں کا حساب کیسے دیں گے۔
اس پر مجھے کمہار کا واقعہ یاد آگیا کہ ایک دفعہ کسی ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا بہت علاج کروایا مگر مرض نا قابل تشخیص ٹھہرا غرض بادشاہ کو اپنے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی چونکہ بادشاہ بے اولاد تھا اس لیے سلطنت کی بقا کی فکر لاحق ہوئی کہ یہ ذمہ داری کس کو سونپی جائے کیونکہ بادشاہ انصاف پسند اور عوام کے دلوں پر راج کرنے والا حکمران تھا کہ اس کے دور میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا اس لیے وہ ہر کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔
بالآخر بادشاہ نے ریاست میں اعلان عام کروا دیا کہ بادشاہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد ایک رات اس کی قبر میں گزارے اس اعلان کو سن کر سب لوگ خوفزدہ ہو گئے کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا یہ اعلان جنگل میں مقیم ایک مفلس کمہار نے بھی سنا اور خیال کیا کہ وہ اگر یہ کام کر لے تو اس کے دن پھر جائیں گے ویسے بھی حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا ۔۔اس کے پاس ہے بھی کیا ۔۔صرف ایک نحیف سا گدھااور ساری عمر اس نے اسی جنگل میں تنہا گزاری ہے نہ کسی کی بری سنی ہے اور نہ بری کہی ہے۔۔!
Grave
یہ سوچ کر کمہار نے اعلان کروا دیا کہ وہ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی جگہ رات قبر میں گزارے گا ۔قصہ مختصر بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی اور کمہار بخوشی قبر میں جا کر لیٹ گیا اور قبر کو بند کر دیا گیا ۔کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور کہا کہ :اٹھو حساب دو !تو کمہار بولا: میں کس چیز کا حساب دوں کیونکہ میرے پاس تو صرف ایک گدھا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے یہ سن کر فرشتے جانے لگے اور پھر رک کر کہا :اس کااعمال نامہ کھولو ذرا دیکھیں اس میں کیا ہے ؟بس پھر کیا تھا فرشتے نے کہا :کہ تم نے فلاں فلاں دن گدھے کو بھوکا رکھا تھا کھانا نہیں دیا تھا ؟ تو حکم ہوا کہ اسے سو دُرے مارے جاریں۔
اس کو سو درے مارے گئے کہ اس کی پسلیاں ہل گئیں پھر فرشتے نے کہا : کہ تم نے ایک دن گدھے پر بے تحاشا وزن لادا تھا اورجب وہ اتنے وزن سے تنگ آکر بیٹھ گیا تھا تو تو نے اس اسے مارا بھی تھا ،پھر حکم ہوا کہ اسے دو سو درے مارے جائیں اس طرح پوری رات اس کی پٹائی ہوتی رہی اور وہ چیختا ،چلاتا اور دھاڑیں مارتا رہا ۔آخر کار صبح لوگوں نے جب قبر کشائی کی کہ اپنے نئے بادشاہ کو خوش آمدید کہیں۔
مگر قبر کھلتے ہی کمہار نکل کر بھاگنے لگا تو لوگوں نے پوچھا بادشاہ سلامت :آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ کمہار بولا : میرے بھائیوں مجھے معاف کرو میں ”کمہار کھوتے چار” ہی بھلا ۔۔میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا میں ساری رعایا کا حساب کیسے دونگا ؟تو جناب حساب تو طے ہے یہاں نہیں ہوگا تو وہاں ہوگا جہاں سے وہ بھی نہیں بچے جنہیں زعم تھا کہ دنیا ان کی مٹھی میں ہے!۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے