دنیا بھر کا میڈیا حسب ضرورت اسکا ذکر ایک ماہ سے کر رہا ہے۔ یہ قیامت صغریٰ ہے لاکھوں ایکڑ پہ پھیلا ایک جنگل جل رہا ہے جس میں جنگلی حیات ( Wildlife )کی نایاب ترین (Endangered) نسلیں اور دنیا میں پائی جانے والی ان کی انتہائی محدود اقسام (Species) لقمہ اجل بن چکی ہیں، اربوں ٹن کی لکڑی، حشرات، انمول نسل کے پرندے ، میلوں دور پہلی قدرتی جڑی بوٹیاں اور صدیوں پرانے درخت جن میں کچھ کی لمبائی چار سو سے چھ سو فٹ تک تھی جل کے کوئلہ بن چکے ہیں۔ یہ امریکہ کے وجود سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی اور بھیانک آگ ہے۔
آگ اس وقت ساڑھے سولہ لاکھ (1,667,855) ایکڑ سے زائد کے علاقے کو نگل چکی ہے اور ساوتھ کیلیفورنیا کے 7,579 مقامات پہ لگی ہوئی ہے جس سے اب تک 2.975 بلین یو ایس ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ آگ پر قابو پانے کے لئے امریکی وسائل کم پڑ رہے ہیں دنیا کے مختلف ممالک سے فائیر فائٹرز اور ریسکیو ٹیمیں اس مشن پہ لگی ہوئی ہیں جن میں ورکرز کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ دنیا بھر کے سائنٹسٹ اور ماہرین کی مدد مانگ لی گئی ہے جو آگ پہ قابو پانے کے فارمولے اور اس کے نقصانات سے بچاو کی تدبیریں کر رہے ہیں۔
آگ کے مناظر بھی انتہائی خوفناک اور ناقابل بیان ہیں، ساوتھ میں لگنے والی آگ سینٹر تک پہنچ چکی ہے جبکہ نارتھ کیلی فورنیا میں رات کو انگاروں کی بارش ہوتی ہے اور اگر ہوا چلے تو چنگاریوں کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ دن بھر پولیس اور ریسکیو کی ایمبولینسیز کے سائرن اور ہیلی کاپٹر کی پروازوں کا شور رہتا ہے جبکہ شام ڈھلتے ہی جنگلی جانوروں کی دلخراش چیخیں اور آگ کی لپٹوں کی ترتراہٹ ماحول کی وحشت بڑھا دیتی ہے، ہوا میں کاربن اور ہیلیم کی مقدار میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور سانس لینے کے لئے آکسیجن کی شرح گراونڈ لیول سے محض تیرہ فٹ تک رہ گئی ہے۔ ساوتھ کا ٹمپریچر 79 ڈگری تک پہنچ چکا ہے۔
اب تک آگ میں ہلاکتوں کی تعداد سو سے کم ہے مگر آدھی ریاست جل چکی ہے۔ دھوئیں کا پیرامڈ ائیر پولوشن میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے ماہرین اس آگ کو کلائمٹ چینجر کہہ رہے ہیں، یعنی کے آگ پہ قابو پالینے کے بعد بھی دنیا کے موسموں میں انتہائی حیرت انگیز تبدیلی آئے گی، گرمیوں کا دورانیہ اپریل سے دسمبر تک پہنچ سکتا ہے جس سے گلیشئر پگلنے کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
امریکہ میں لگنے والی یہ آگ دنیا کے سات براعظموں پہ براہراست اثر انداز ہو رہی ہے ، سمندر پہ چلنے والی ہواوں میں کمبسچیبل گیسسز کے ملنے سے نئے مرکب تیار ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں انتہائی زہریلی گیسس پروڈیوز ہو رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ایشیاء اور افریقہ میں لال رنگ کے بادلوں سے سرمئی رنگ کی بارشیں ہونگی، اور فصیلیں ان تیزابی بارشوں سے برباد ہوجائیں گی، اور زمین کے اندر کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں رہے گا۔ کیلفورنیہ کی یہ آگ صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لئے شامت عمال ثابت ہونے کو ہے۔