کیلی فورنیا میں فائرنگ کی چھان بین

Syed Rizwan Farooq And his Wife Tashfeen Malik

Syed Rizwan Farooq And his Wife Tashfeen Malik

تحریر: محمد صدیق پرہار
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہرسان برنا ڈینو میں پولیس کاکہنا ہے کہ معذوروں کے لیے قائم ایک سوشل سروس سنٹرمیں چودہ افراد کی ہلاکت میںمبینہ طور پر ملوث دو مشتبہ افراد کی شناخت کرلی گئی ہے۔ خاتون کا تعلق پاکستان سے ہے۔ لاس اینجلس میں ذہنی مسائل اور بیماریوں کاشکار افراد کی مدد کے مرکز پربدھ کی صبح ہونے والے حملے میںسترہ افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔ پولیس کاکہنا ہے کہ ان مشتبہ افرادمیں اٹھائیس سالہ سیّد رضوان فاروقی اوران کی اہلیہ ستائیس سالہ تاشفین ملک شامل ہیں۔امریکہ کے دفاعی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کاکہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیںاوردہشت گردی کے اقدامات کوفی الحال مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقامی پولیس کے سربراہ جیرڈبرگوان نے بتایا کہ ابتدائی اندازوں کے برعکس حملہ آوروںکی تعداددوہی تھی۔

یہ دونوں افرا دخود کار ریفلوں سے مسلح اورجنگی لباس میںملبوس تھے اورانہوںنے سینٹرکی عمارت میںدوپائپ بم بھی نصب کیے تھے جنہیںناکارہ بنادیا گیا ہے۔پولیس افسرکاکہنا ہے کہ حملے کچھ دیربعد پولیس نے تعاقب کے بعد فائرنگ کے تبادلے میںجن دومشتبہ افراد کوہ لاک کیاان میں اٹھائیس سالہ رضوان فاروقی امریکہ ہیمیں پیدا ہوئے تھے۔ ایف بی آئی حکام کاکہنا ہے کہ اٹھائیس سالہ رضوان فاروقی اوران کی ستائیس سالہ بیوی تاشفین ملک کادہشت گردوں سے تعلق تھا اورحملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاشفین ملک کاتعلق ضلع لیہ کی تحصیل کرورلعل عیسن سے ہے۔جوپچیس سال قبل سعودی عرب منتقل ہوگئی تھی اورقانون نافذکرنے والے اداروںنے اس کے رشتہ داروںسے رابطہ کرلیا ہے۔اورجبکہ تاشفین پاکستان سے نہیں سعودی عرب سے امریکہ گئی تھی۔جبکہ امریکی خبررساں ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ تاشفین ملک داعش سے وابستہ تھی۔

ISIS

ISIS

اوراس نے داعش میںش مولیت کے لیے بیعت کی تھی۔ یہ دعویٰ تحقیقاتی حکام کی جانب سے کیا گیا ہے جس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات پریقین کرنے کے لیے شواہد ہیں کہ تاشفین داعش کاحصہ تھی تاہم مقامی مسجدکے امام کاکہنا ہے کہ انہوںنے رضوان فاروقی میں انتہاپسندی کی علامات نہیں دیکھیں۔ تاہم ایف بی آئی جورضوان فاروقی کے فون ریکارڈ اور کمپیوٹر ہار ڈویئر سے معلومات حاصل کررہی ہے کہا کہنا ہے کہ چندسال پیشتر رضوان فاروقی کے ملک کے اندراورباہرانتہا پسندوں سے رابطے تھے۔ یہ بات لاس اینجلس ٹائمزنے تحقیقات پربریفنگ لینے والے کانگریس حکام کے حوالے سے بتائی۔حکام مشتبہ حملہ آورمیاںبیوی سے متعلق معلومات جمع کرنے کے علاوہ حملے کے محرکات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔ رضوان فارقی کے والد کا تعلق پاکستان سے ہے جبکہ وہ خود امریکہ میںہی پیداہوااوریہیںا س نے پرورش پائی۔ تاشفین کے بارے میںامریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسے کے ون ویزہ اسلام آبادسے جاری کیاگیا۔دفاعی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے تفتیشی افسرڈیوڈبوڈچ کاکہناہے کہ رضوان فاروقی بیرون ملک گیا اوروہاں سے تاشفین کے ساتھ جولائی دوہزارچودہ میںواپس آیا۔جس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔

کیلفورنیا میں فائرنگ کے ملزم رضوان فاروق کی فیملی کے وکلاء نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ تفتیشی حکام رضوان فاروق اورتاشفین ملک کاتعلق کسی بڑے دہشت گروپ سے ثابت نہیں کرسک ے۔انہوںنے بتایا کہ ایف بی آئی حکام نے رضوان کی والدہ کوسات گھنٹے حراست میں رکھا ۔رضوان کے بھائی بہنوں سمیت گھر والوں سے چارگھنٹے تفتیش کی گئی۔ وکیل نے کہا کہ فیس بک اکائونٹ کسی اورنام سے تھا تواسے تاشفین کے ساتھ کیسے جوڑا جاسکتا ہے۔رضوان فاروق کے انتہاپسندی یاجارحانہ مزاج سے متعلق شواہدابھی تک سامنے نہیں آئے۔ وکیل نے میڈیاکے کردارپرسوال اٹھایااور کہا کہ لورا ڈومیں فائرنگ کاملزم عیسائی تھالیکن اس کے مذہب کاکہیں ذکرنہیں کیا گیااب میڈیا کیلیفورنیا فائرنگ کے واقعے میں رضوان فاروق کومسلم انتہاپسندکہہ کر ہیڈلائنز دے رہا ہے۔پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ کچھ غیر ملکی عناصر کیلفورنیاواقعہ پر پاکستان کا نام اچھالنا چاہتے ہیں۔جس میںکچھ ہمسایہ ممالک بھی پیش پیش ہیں

Pakistan

Pakistan

۔انہوںنے درست ہی کہا ہے کہ کسی ایک شخص کی غلطی پرڈیڑھ ارب لوگوں کو ذمہ دارنہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے مغربی دنیامیںاسلام فوبیا پھیل رہا ہے۔ پاکستان نے امریکی حکام کوہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تاشفین کاخاندان ڈیرہ غازی خان سے کئی سال پہلے سعودی عرب منتقل ہوگیاتھا۔ گزشتہ پچیس سال سے یہ خاندان سعودی عرب میں مقیم ہے۔ تاشفین کی سامنے آنے والی تصاویرزیادہ ترجعلی ہیں۔تاشفین آخری مرتبہ دوہزارتیرہ میں پاکستان آئیں۔ مغربی میڈیا کی من گھڑت خبروںکے پیچھے ایک خاص مقصد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میںوزیراعظم نوازشریف وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کسی امریکی وفدسے ملاقات نہیں کی۔ وزیراعظم سے امریکی وفدکی ملاقات کی خبربالکل بے بنیاداورمن گھڑت ہے۔ پاکستانی میڈیامغربی میڈیاکی من گھڑت خبروںپرکان نہ دھرے۔رضوان فاوق کے والد جوکہ کائونٹی کی ایجنسی کے ساتھکام کرتے ہیں نے کہا ہے کہ میں یہ سب سن کرحیران ہواکہ اورمجھے دھ چکالگا کہ فاروق نے یہ سب کیاہے۔

انہوںنے کہاکہ میںنے آج تک اس کے بارے اس طرح کی بات نہیں سنی تھی۔وہ مذہبی تھانمازپڑھتاتھا کام پرجاتا تھا۔وہاں سے آنا نماز پڑھنی اور گھرواپس آنااس کے معمولات تھے۔فاروق کے ساتھ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میںکام کرنے والی ایک لڑکی گریسل ڈانے بتایا ہے کہ وہ ہائے ہیلوسے زیادہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ رضوان فاروق کے اہل خانہ نے امریکہ کی کونسل آف اسلامک ریلیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں واقعے کی شدیدمذمت کیفاروق کے برادرنسبتی فرحان خان نے واقعے پرحیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انفرادی فعل ہے اوراس کامسلمانوںسے کوئی تعلق نہیں۔ رضوان فاروق کی بہن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ میرے وہم وگمان میںبھی نہیںتھا کہ میرے بھائی اوربھابھی ایساکرسکتے ہیں ۔بطورخاص ایسے حالات میںجب ان کی شادی خوش وخرم تھی۔واشنگٹن میں وائٹ ہائوس سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے امریکی صدرباراک اوباما نے ریاست کیلیفورنیاکے علاقے سان برناڈینومیں فائرنگ کے حالیہ واقعے کودہشت گردی کی واردات قراردیا۔تاہم ان کاکہناتھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوامریکہ اوراسلام کی جنگ کے طور پرن ہیں دیکھاجانا چاہیے۔ امریکی صدر کا کہن اتھا کہ آزادی خوف سے کہیںزیادہ طاقتورہے۔اپنی تقریرمیں صدراوبامانے کہا کہ اس بات کاکوئی اشارہ نہیں ملاکہ کیلیفورنیا کے حملہ آورکسی غیر ملکی شدت پسند تنظیم کے اشارے پرکام کررہے تھے۔

President Obama

President Obama

صدر اوبام انے کہا شدت پسندامریکی معاشرے میںموجوامتیازکافائدہ اٹھارہے ہیں۔ان کہاکہناتھا کہ امریکہ دہشت گردی کے اس بڑھتے ہوئے خطرے پرقابوپالے گا۔لیکن امریکیوںکواس جنگ کواسلام اورامریکہ کے درمیان نہیں سمجھناچاہیے اورنہ ہی ایک دوسرے کے خلاف ہوناچاہیے۔امریکی صدرنے کہا کہ اگرہم دہشت گردی کوشکست دیناچاہتے ہیں توہمیں مسلم کمیونٹی کو اپنے مضبوط ترین اتحادی کے طورپر ساتھ رکھناہوگانہ کہ ہم انہیں شک اورنفرت کاشکاربنا کر دوردھ کیل دیں۔ان کاکہن اتھا کہ امریکی عوام کااپنے ملک میںبسنے والے مسلمانوں کے خلاف ہوجانا ہی وہ اصل چیزہے جوداعش کے شدت پسندچاہتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ داعش اسلام کی ترجمان نہیں۔اورامریکہ اس شدت پسند تنظیم سے لڑنے کے لیے اپنی ہرممکن طاقت استعمال کرے گا۔ امریکی صدرنے کہا کہ داعش کااسلام سے کوئی تعلق نہیں دنیامیںکثیرتعدادمیں مسلمان آبادی معتدل خیالات کی مالک ہے۔مسلمانوںکونفرت کانشانہ بناکرالگ نہ کیاجائے ۔

داعش کے ٹھکانوں پر پوری قوت سے حملے کرناہوں گے۔امریکی فوج نے بیرون ملک بھی دہشت گردی کے نیٹ ورکس کاپیچھا جاری رکھاہوا ہے۔جب تک مسلم ممالک اپنے گھروں سے شدت پسندی کاخاتمہ نہیںکردیتے۔اس وقت تک ڈومورکامطالبہ کرتے رہیں گے۔قوم سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ امریکہ اس شدت پسندگروہ کوشکست دے کررہے گا۔انہوںنے کیلی فورنیاواقعے کاتفصیلی ذکرکرتے ہوئے نئی موثرحکمت عملی کااعلان کیا۔اعلان کردہ حکمت عملی میںمنگتیرویزہ پروگرام پرنظرثانی،ہوائی اڈوںپراضافی سکر یننگ کاآغازاورداعش کے محفوظ ٹھکانوںپرزوردارحملے جاری رکھناہے۔ صدرنے امریکی کانگریس پرزوردیا کہ گن کنٹرول کے حوالے سے فوری قانون سازی کااقدام کیاجائے جس سے حملوںمیںاستعمال ہونے والے خطرناک نوعیت کے ہتھیاروںتک عام شہری کی رسائی باقی نہ رہے۔ انہوںنے کہا کہ امریکہ میں دہشت گردخطرات سے نمتنے کے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں۔

انہوںنے واضح کیاکہ امریکی فوج کوکسی سرزمین پرپیررکھنے کی ضرورت نہیں۔تاہم انہوںنے کہا کہ
موثراورزوردارفضائی کارروائیوںکے ذریعے متعین اہداف حاصل کیے جائیں گے۔انہوںنے کہا کہ داعش کاشدت پسندگروہ یہی چاہتا ہے کہ امریکی بری فوج کوالجھایاجائے۔تاہم دشمن کے عزائم کوخاک میںملایاجائے گا۔اپنی تقریرمیںصدراوبامانے مسلمان برادری کی بہادری اورحب الوطنی کی تریف کی۔جوامریکہ کی ترقی اورخوشحالی میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہے ہیں۔ اس سے پہلے اپنے ایک بیان میں صدراوبامانے کہا کہ امریکہ میں عام فائرنگ کے ایسے واقعات رونماہورہے ہیں۔جن کی دنیامیںکہیںاورمثال نہیںملتی۔

America and Israel

America and Israel

امریکہ اوراسرائیل سے تعلقات پرتھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کی صدارتی امیداورہیلری کلنٹن نے کہا ہے کہ اسلام کوشدت پسند مذہب کہنا مسلمانوں کی اکثریت سے ناانصافی ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام پرامن مذہب ہے۔ مسلمانوںکی اکثریت کاشدت پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔محض ایک یادوافرادکے عمل سے اسلام کوشدت پسندمذہب کہنا درست نہیں ہوگا ۔امریکی اراکین کانگریس اوردیگرمنتخب حکام نے کیلی فورنیافائرنگ کیس کے بعد ملک بھرمیںپیش آنے والے بعض حالیہ نفرت انگیزواقعات کے بعدامریکی مسلمانوںکے ساتھ اظہاریکجہتی کرتے ہوئے اسلام فوبیاکے شکارعناصرکی مذمت کی ہے۔وائس آف امریکہ اردوسروس سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کانگریس کے رکن ڈون ہائرنے کہا کہ امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے خلاف کوئی نفرت انگیزجرم امریکہ کے خلاف جرم تصورکیاجائے گا۔انہوںنے مسلم کمیونٹی کوپیغام دیاکہ وہ عدم رواداری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ان کاکہناتھا کہ بیشترامریکی اپنے مسلم بھائیوںکااحترام کرتے ہیں۔جوکچھ سان برناڈینومیںہوااس سے مسلمانوںاوراسلامی عقیدے کاکوئی تعلق نہیں۔

پیرس میں حملوںکے بعدیہ دوسراواقعہ ہے جس کومسلمانوں کودہشت گردثابت کرنے اوراس کاتعلق اسلام سے جوڑنے کی بھرپورکوشش ہورہی ہے۔زبانی طورامریکی صدرباراک اوباما، صدارتی امیدوارہیلری کلنٹن اورکانگریس کے بعض ارکان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کااسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ مسلمانوں کونفرت کانشانہ نہ بنایاجائے۔ انہوںنے امریکہ میں رہنے والے مسلمانوںکی تعریف بھی کی۔پھرکیاوجہ ہے کہ مغربی میڈیا کیلی فورنیافائرنگ واقعہ کواسلام اورپاکستان سے منسوب کرنے میںمصروف ہے۔اوباما نے قوم سے اپنے خطاب میں امریکی میڈیا کون ہیں کہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف زہرا گلناچ ھوڑدے۔ اس نے اپنے میڈیا کون ہیں کہا کہ وہ کسی ایک شخص کی کارروائی کواس کی تمام کمیونٹی کوذمہ دارنہ ٹھہرائے۔ جب سب تسلیم کررہے ہیںکہ یہ ایک انفرادی فعل ہے۔ رضوان فاروقی کے والدین ، اہل خانہ ، رشتہ داروں اوردیگرافرادنے بھی جب اس واقعہ کی مذمت کی ہے توپھرکیلی فورنیا سے لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن تک چھان بین کس لیے ہورہی ہے۔جولوگ پاکستان سے پچیس سال پہلے چلے گئے۔

ان کی چھان بین یہاںکس مقصدکے تحت کی جارہی ہے۔جس امریکی معاشرہ میں انہوںنے پرورش پائی اوررہ رہے ہیں وہاں اس طرح کی چھان بین کیوں نہیں کی جاتی اس معاشرہ میں رہتے ہوئے ملزمان نے ایساکیوں کیا ۔امریکی حکام اورمیڈیاکواپنے معاشرے کاجائزہ لیناچاہیے کہ جس شدت پسندی اوردہشت گردی کوختم کرنے کے لیے وہ جنگ کررہے ہیں کہیں وہ ان کے ہی معاشرے سے تونہیں پھوٹ رہی۔امریکہ واقعی مسلمانوںکے خلاف نفرت ختم کرناچاہتا ہے تواسے سب سے پہلے اپنے میڈیا کورو کنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانابند کردے بعدازاں ایسے اقدامات کرناہوں گے جس سے ثابت ہوکہ اب امریکی حکام نہ تو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اورنہ ہی انہیں دہشت گردسمجھتے ہیں۔ مزیدیہ کہ لیہ کے باسی ملن نثار، مہمان نواز، محبتیں تقسیم کرنے والے، خوش اخلاق اورخوش مزاج ہیں۔ یہ امن اورسکون کے ساتھ رہ رہے ہیں۔لیہ کی عوام کو کیلی فورنیا فائرنگ واقعہ کی کڑیاںملا کر خوف زدہ نہ کیاجائے۔وزیراعظم نوازشریف لیہ سمیت جنوبی پنجاب کودہشت گردی کے خلاف جنگ کانشانہ بنانے کی کوششوں کوناکام بنانے کے لیے اپناکرداراداکریں اورامریکی حکام سے خصوصی بات کریں ۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com