یہ مضمون لکھنے کی جستجو جو شروع کی تو مجھے اس کا عنوان سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا لکھوں اسی لئے آج ”بلا عنوان ہی لکھ دیاکیونکہ جب قلم نے لکھنا شروع کیا تو اس وقت راقم بجلی والوں کی لوڈ شیڈنگ کے عتاب میں آگیا یوں مجھے مین کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ پر منتقل ہونا پڑا ۔ وہ کہتے ہیں ناکہ جب لفظوں کی آمد ہو رہی ہو تو انتظار نہیں کرنا چاہیئے اسی لئے میں فوری طور پر بشمول ادھورے مضمون اور یو ایس بی کے لیپ ٹاپ پر آگیا۔
اب جبکہ مضمون نویسی جاری ہی ہے تو شام کی سرمئی چادر پر کاجل کی گہری لکیریں پھیلتی جارہی ہیں اور دور دور تک تاحد نگاہ بجلی کے تاروں پر ستارے جگمگا اُٹھے ہیں اور آسمان کے ستارے بھی روشنی بکھیر نے ہی والے ہیں۔ ملگجی شام کی آغوش اور ڈھلتے ہوئے سورج کی آخری کرنیں گھر کے قریب ہی واقع جامع مسجد کی بلند مینار وں کو چومتی ہوئی رخصت ہونے کی نوید دے رہی ہیں اور سُرمئی شام کی گود میں ان آخری شعاعوں کی کجلائی ہوئی جگمگاہٹ سرکتی ہوئی دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔
قطع نظر ان سب باتوں کے مضمون کی طرف لوٹتے ہیں کیونکہ قارئین کو میری ان باتوں سے زیادہ آج کل ملکی سیاسیات میں دلچسپی ہے ۔نصف صدی سے کتنی ہی حکومتیں بنی ہیں ان میں یہ گزری ہوئی حکومت نے ہی اپنی مدت کار کو پورا کیا ہے۔ جسے اتحادی حکومت کہا جاتا ہے۔ اسی حکومت نے مفاہمت کی پالیسی اور اتحادی حکومت چلانے کے فارمولے ایجاد کئے۔ اس سے پہلے زیادہ تر ہمارے یہاں فوجی حکمرانی ہی راجدھانی پر بُرا جمان رہے ہیں۔
خیر اس مفاہمتی و اتحادی حکومت نے تو جیسے تیسے اپنا وقتِ مقررہ پورا کر لیا۔ اس دور میں عوام کو بے شمار تکالیف ملیں جن میں بے امن و امانی، بدعنوانی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی جوان ہمت عوام نے ان سب اذیتوں کا ببانگِ دہل مقابلہ کیا۔ اور اب جاکر انتخابات کو موسم دوبارہ آیا ہے جس میں زخم خوردہ عوام اپنے لئے مزید پانچ سالوں کے لئے نئے حکمران چننے والے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اب باشعور ہو چکی ہے یا نہیں ۔ باشعوری کا فیصلہ ان کا ووٹ کرے گا کہ انہیں بہتر حکومت کی تلاش ہے یا پھر سے اُسی ڈگر پر ہی چلنا ہے جو اس سے پہلے تھی۔
مملکتِ خدا داد کے لئے اور یہاں کے باسیوں کے لئے درد مند اور غمخوار دل لے کر پیدا ہونے والے (بقول امیدواروں کے)امیدواروں نے میدانِ سیاست میں قدم رنجا فرما دیا ہے اور سب ہی اپنے عظیم ہونے کے دعوئے کر رہے ہیں۔ اور یہاں کے باسیوں کی پریشانیوں کو ختم کرنے کے دعوئے بھی کئے جا رہے ہیں۔ بقول امیدواروں کے (کہ جن کی اپنی ڈگری بھی جعلی ثابت ہو رہی ہے اور جنکا اپنا ہی قبلہ درست سمت میں قائم نہیں لگتا، عام فہم سوالات کے غلط جوابات ان کی نیک نیتی پر شک کا گمان پیدا کر رہی ہیں)عوام کی پریشانی ان کی پریشانی ہے۔
Fake Degree
حالِ ملت کے لئے تڑپنا اور گھٹتے رہنے اور دن کا چین اور راتوں کی نیند اس کے لئے حرام کر دی ہے ، کون یقین کرے گا۔ قوم و ملت تو اس وقت ان کی اپنی تابناکی پر متوجہ ہیںاور روزآنہ نئی نئی خبریں ان امیدواروں کے سننے میں مگن ہیں اور قہقہے بکھیر رہے ہیں ۔ چلیئے کسی بہانے ہی سہی اس ڈری سہمی عوام کے لبوں پر کچھ قہقہے تو آپ کی وجہ سے آئے۔ یعنی کچھ پل انہیں اسی قہقہے کی بنیاد پر خوشی تو میسر آ ہی گئی۔
ہر نئے سال پر عوام کو خوشیوں کی تمنا تو ہوتی ہی تھی اب عوام اس اُمید میں باہنیں پسار کر نئے انتخابات کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ نئے سال کی گٹھری میں تو ان کے لئے ڈھیر ساری خوش خبریاں نہیں ملتیں شاید نئے انتخابات کے بعد انہیں خوشیوں کا خزانہ مل جائے۔ لیکن پانچ سال تک جس طرح ماہ وسال دن و رات عوام کے ساتھ ساتھ رہنے کا وعدہ کرنے والے ممبران انہیں اکیلا چھوڑ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں اور عوام کو اپنی صورت تک نہیں دکھاتے اس سے عوام کافی بد ظن ہیں۔ کوئی بات نہیں میرے ہم وطنوں! بیم ر رجا کی اسی کیفیت کا زندگی ہے۔
اور نا امیدی کفر ہے ۔ ہمارے گھر آنگن میں ایک نہ ایک دن خوشیوں کے تھپیڑے ضرور آئیں گے ۔ ان نا مبارک اور نا مساعد ساعتوں کی گھڑیاں جو آپ نے گِن گِن کر گزاری ہیں اس کی پرچھائیاں تا دیر قائم نہیں رہنے والی ہے۔ بے رحم وقت سب کو اپنے کٹہرے میں لاتا ہے ۔کیو نک انہوں نے اپنے حلف کا پاس نہ رکھتے ہوئے عوام دشمنی نبھائی اور مقررہ وقت بھی پورا کیا۔عوام پر سُکھ اور چین کی گھڑیاں تنگ کر دی گئیں ، افرا تفری، دہشت گردی، کرپشن، بے روزگاری ،مہنگائی کے تحفے دیئے ۔ اب اس الیکشن نے ایک اُمید پھر سے ان باسیوں کے لئے جگائی ہے۔
جن میں اُمید کی کرنیں پَل رہی ہیں کہ آنے والا وقت ان کے لئے خوشخبریاں لے کر آئے گا۔ بے چینیوں کا موسم ختم ہوگا ۔ سیاسی اکھاڑے میں جس طرح کے نعرے آج کل لگائے جا رہے ہیں وہ کوئی نئی بات نہیں مگر پھر بھی عوام کو امید و یاس ہے کہ تبدیلی آنے والی ہے۔(واللہ علم) ایک زمانہ تھا جب مزدور طبقہ اور عام لوگ دال روٹی کھا کر چین کی نیند سوتے تھے مگر آج یہ دونوں ہی چیزیں عام آدمی سے دور ہیں۔ باقی پکوانوں کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں اس پر طُرّہ یہ ہے کہ لوگ بلند بانگ دعوے ٰ کر رہے ہیں کہ اقتدار میں آکر سب ٹھیک کر دیں گے۔
اگر خود نہیں ایوان کی کرسی پر بیٹھ سکتے تو اپنے بیٹے، بیٹیوں، عزیز رشتہ داروں کو یہاں ایڈجسٹ کروانے میں مصروف ہیں ۔ کیا یہ موروثی سیاست نہیں۔ کیا اقتدار یہ چند خاندانوں کی ہی میراث ہے، عوام کا اس پر کوئی حق نہیں کہ متوسط گھرانے کا فرد وزیراعظم کی کرسی سنبھال سکے۔ متوسط گھرانے کا فرد اگر اس کرسی پر بُرا جمان ہوا تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں اس کی خاص وجہ تو صاف اور ستھری یہ ہے کہ وہ مسائل کی چکی میں پسا ہوا ہوگا اور اسی لئے اسے مسائل حل کرنے میں دلچسپی بھی ہوگی۔
Pakistan
وگرنہ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہونے والوں کو اس کا کہاں احساس ہو سکتا ہے۔اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ عصرِ حاضر میں ہمیں جن سیاسی اور فکری خطرات اور چیلنجوں کا سامنا ہے وہ اپنی نوعیت اور سنگینی کے اعتبار سے دوسرے تمام معاملوں سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ جبھی تو آج آپ سب دیکھ رہے ہیں کہ جعلی ڈگریوں کے بَل بُوتے پر اقتدار کے مزے لینے والوں کا قید خانوں میں منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔
اے کاش! کہ ہمارے ملک کے یہ باسی سب کچھ سمجھ سکتے تو یہ غلامی کے مقابلے میں آزادی کی مدھر پکار اور اونچ نیچ کے ماحول میں مساوات اور برابری کی محبت بھری آواز سن لیتے اور نفرتوں کے بیج بوکر لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچا سکتے۔ اے کاش! کہ ہماری عوام کو حقیقت کا شعور ہوتا تو پُر فریب نعروں میں نہ آتے اور خود ہی اپنی زندگی پس و پیش میں نہ ڈالتے۔ اے کاش! ہمارے عوام کچھ نہیں تو اپنے ہی دُکھ درد کو یاد کر لیتے جسے وہ نصف صدی سے بھگت رہے ہیںتاکہ انہیں صحیح فیصلہ کرنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
اے کاش! کہ یہ پرانے پرانے لوگ الیکشن کو خیر باد کہہ دیں، ہر بار یہی لوگ اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں کیا ملک میں نوجوان نسل کی کمی واقع ہوگئی ہے ۔ اگر اسی کا نام الیکشن ہے تو پھر یہ الیکشن برائے نام ہی کہلائے گا۔ ایک اسمبلی ختم ہوئی تو دوسری وجود میں آنے کی تیاری ہے مگر اس میں بھی وہی لوگ وہاں تک رسائی حاصل کرنے والے ہیں جو پہلے ہی وہاں موجود رہ کر عوام کو بے حال کر چکے ہیں۔ ارے بزرگو! اب وقت آ چکا ہے کہ آپ لوگ ریٹائرمنٹ لے کر کنارہ کشی اختیار کرلیں اور نوجوانوں کو بھی ملک سنوارنے کا موقع دیں ۔اس ملک کے نوجوانوں میں بڑی سوجھ بوجھ ہے ، چند ہی مہینوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ نوجوان۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی