تحریر: ع۔م۔بدر سرحدی میں نے اپنے کالموں میں کئی مرتبہ لکھا ہے کہ مسیحی قوم نہیں بلکہ ”ملی جلی بھیڑ ”ہے جس کا کوئی آگو نہیں ہر کوئی اپنی ڈگڈگی بجا رہا ہے مسیحی لیڈر شپ میں خصوصا ١٩٩٩، کے بعد آنے والوں میں رتی بھر بھی قومی حمیت نہیں، جب کبھی یہ بھیڑ ایک قوم تشکیل پائے گی تو پھر اِس میں قومی ‘حمیت ” کا جذبہ بھی از خود پیدا ہو جائے گا۔
راقم بھی ٩٨٨!تک اس اہم قومی جذبہ سے عاری تھا ،انہی دنو ں میں اپنا ایک اہم، مضمون جس میں ضیاء الحق کو مشورہ دیاکے اب وقت ہے وردی اتار کر عوام سے میدیٹ حاصل کرے کہ اپنا لگایا گیا پودا بھی خود ہی اُکھاڑ دیا،لے کر جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور کے پاس گیا ،انہوں نے مضمون دیکھا ،اور ایک صائب مشورہ دیا کہ تمہارے اپنے بے شمار مسائل ہیں اُن پر لکھا کرو ،کہ اُن دنو کبھی کسی اقلیتی مسلہ پر نہیں لکھا تھا ،تب میرا قومی حمیت کا جذبہ بیدار ہوأ اور میرا رجحان اپنے مسائل کی طرف مڑا ……جب ٨٨ء میں بے نظیر بھٹو وزیر آعظم بنی تو پہلی نشری تقریر میں اُنہوں نے کہا اقلیتیں ہماری مقدس امانت ہیں۔
تب پہلی مرتبہ اقلیتی مسائل پر قلم اُٹھایا ،اور یہ مضمون کیا اقلیتیں مقدس امانت ہیں یا پاکستانی بھی جو نوائے وقت اور پھر جنگ لاہور میں شائع ہوئے ،اب ربعہ صدی سے لکھ رہا ہوں، ٢٠٠٦ میں کتاب ”نظریہ قائد ریاست اور اقلیتیں ”شائع ہوئی مگر افسوس کہ مسیحی لیڈر شپ میں اس قومی حمیت کے جذبہ کو بیدار کرنے میں تاحال ناکام ہوں ،اس قومی حمیت کے جذبہ کے فقدان کے باعث اقلیتوں خصوصا مسیحیو ں کی نام نہاد لیڈار شپ میں قومی حمیت کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکا ،اور مسائل ہیں کہ روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں ،آج مسیحیوں کے اتنے گنجلیک اور گھمبیر مسائل ہیں کہ سرا ہی نہیں ملتا، اِن کو حل کرنا تو دوسری بات ہے۔
پہلے سرا تو ہمارے ہاتھ آئے اور اِن مسائل کے زمہ دار ہماری نام نہاد قومی لیڈر شپ ہے ،کسی اور کومورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ،اکثریت کا تو یہ ایجنڈا ہوتا ہے کہ اقلیت کو دبایا جائے مگر …. آئین کے ارٹیکل ٣٦،میں لکھا ہے ، Artcle,36. Protection of Minorities The state shall safaguard the legitimate rights and interests of minorities, including their due representation in the Federal and Provinncial services اس سے قبل بھی کئی مرتبہ لکھا ہے کہ یہاں انگریزی لفظ ،Legitimate،استعمال کیا گیا یہ ایک قانونی لفظ ہے جس کا اس معاشرہ میں استعمال نہیں کہ یہاں تو ناجائز بچے کوڑے دانوں میں ہوتے ہیں جبکہ جس معاشرے سے یہ لفظ آیا ہے وہاں ایسے بچوں کی سرکاری طور پر پرورش کی جاتی… ….،لیکن یہاں اقلیتوں کے حقوق کے لئے استعمال ہوأ ،کسی مطالبہ کو ناجائز کہہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے ،دوسری بات آئین نے لفظ اقلیت کی تشرح نہیں کی میں آج تک اقلیت کا مفہوم نہیں سمجھ سکا ،اقلیت کا لیبل لگا کر غیر مسلم پاکستانیوں کی پاکستانیت اور حب الوطنی کو مسترد کیا جاتا ہے …اب یہ نام نہاد لیڈر شپ جو اسمبلیوںمیں براجمان ہیے بتائے کہ کیا۔
Christians Protests
اس ارتیکل کی روشنی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اہم سروسز میں غیر مسلموں کی کتنی نمائندگی موجود ہے ١٥ مارچ ٥ ١ہ٢،کوسانحہ یوحنا آباد میں اکیس افراد مارے گئے ،اور یہ حلقہ میاں شہباز شریف کا تھا وہ ایک مرتبہ بھی یوحناآباد نہیں آئے ،جبکہ یہاں دو ایم پی ایز بھی ہیں ،کہ انہیں پتہ ہے اگلے دفعہ پھر ووٹ تو مل ہی جائیں گے ، لیکن اب یہ بھول جائیں کہ پھر ووٹ ملیں گے ….. یہاں آنا تو دور کی بات ہے یہاں سے جو لوگ گرفتار ہوئے پنجاب حکومت اور پولیس کی ملی بھگت سے اُن پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات بنائے گئے یہاں بھی نام نہاد لیڈر شپ کا کردار نمایا ہے، جبکہ اُن کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ ٣٠٢ ، بھی لاگوں نہیں ہوتی، کہ دو چرچوں پر خود کش حملہ میں اکیس لوگ مارے گئے جن چھ مسلم بھی تھے، ان حملوں کے ردِ عمل میں اتفاقیہ حادثہ تھا کسی منصوبہ کے تحت ایسا نہیں ہو أ کہ دو زیر حراست پولیس کی موجودگی میں مارے گئے۔
جبکہ خود کش حملے منصوبہ کے تحت ہوئے ….میں جماعت اسلامی کے راہنما جناب لیاقت بلوچ صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ تعزیت کے لئے آئے فیروز پور روڈ پر ہی اپنی گاڑی سے اترے اور مصاحبوں کے ساتھ پیدل چلتے ہوئے سینٹ جان چرچ آئے مجھ جیسے لوگ جو وہاں موجود تھے تعزیت کی اور پھر کرائست چرچ بھی گئے مگر افسوس کے جس نے یہاں سے ہزاروں ووٹ حاصل کئے تکبر کی وجہ سے نہ آئے …..بات شروع کی قومی حمیت کی کہ مسیحی نام نہاد لیڈر شپ میں قومی غیرت کا فقدان ہے۔
چیف ایڈیٹر عمانوایل ظفر مانامہ ہمسُخن، دی مینارٹی ویوز جو لاہور اور لندن سے شائع ہوتاکے ادارتی نوٹس اور اپنے مقالاتہ خصوصی میں ہر ماہ اقلیتی مسائل اور اُن کے قانونی حل کی تجاویز دیتے ہیں دیگر اہل قلم بھی لکھتے رہتے ہیں مگر راہ میں یہ نام نہاد لیڈر جو اکثریتی جماعت کے کندھوں پر بیٹھ کر اسمبلییوں میں پہنچتے ہیں بڑی رکاوٹ ہیں کہ اِ ن میں رتی بھر بھی قومی حمیت نہیں ،جہاں تک حکمرانوں کا تعلق ہے وہ غیر مسلموں کو ووٹ کا حق بھی دینے کے لئے تیار نہیں،جس میں حکومت ،الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے بھی شامل ہیں ،باربار اقلیتوں کے مطالبے کے باجود درست مردم شماری نہیں کی جاتی ، کہ اگر اقلیتوںکی نشستیں بڑھیں اور انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا تو یہ اپنے مطالبات کے لئے حکمرانوں کے لئے مسائل پیدا کریں گے ٧٠ ء میں قومی اسمبلی کی ٨٨ سیٹیں بڑھ کر ٣٤٢ ،ہو گئیں مگر غیرمسلموں کی وہی دس نشتیں آج بھی ،یہ قومی سطح پر ٹیکنیکل دھاندلی کہ آئینی طور پر بھی ُپاکستان میں غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری ہیں ،یہ تو اکثریتی حکمران جماعت کی مرضی ہے وہ انہیں بھیک میں کیا کچھ دیتے ہیں ،٥،اگست ٢٠١٥کوسپریم کورٹ کے فل بینچ کے تاریخی فیصلہ میں جسٹس جواد ایس خوا جہ نے اپنے اختلا فی نوٹ میں یہ لکھا کے آئین کی دفعہ ٥١، نے غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری بنا دیا ، غیر مسلموں کے انتخابات ارٹیکل ٢٢٦ سے متصادم قرار دیا۔
اوربس…..، انتخابی اصلاحات کی ٣٣ رکنی کمیٹی میں کسی غیر مسلم پاکستانی مٹی کے مادھو کو بھی شامل کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ایسے میںاس کمیٹی سے حسب روائت کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ ان کے انتخابات بارے کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے گا ، اور اسکی بنیادی وجہ غیرمسلموں میں قومی غیرت کا فقدان ہے،اگر ان میں رتی بھی قومی حمیت ہو اور یہ اپنے کسی ایک اجتمائی مطالبہ کے لئے کہ انہیں ووٹ کا حق دیا جائے اور کہ اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا بھی حق دیا جائے ،ایک بار ہاتھ کھڑے کر کے قومی اسمبلی از خود یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ یہ قومی اسمبلی ہے ،مگریہ ہر گز قومی اسمبلی نہیں ، یہ مسلمان اسمبلی ہے اس سے باہر آ جائیں ملک ہی نہیں دنیا میں ہلچل مچ جائے گی ،تمام مسائل اور مطالبات ایک دن میں پورے ہوں گے شرط یہ ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے اپنے ذاتی مفادات کو قوم اور اس کے مفاد کے لئے قربان کر دیں ،مگر یہ بھی ان کے لئے مشکل ہے کہ مفت میں ممبری اور وزارت تک مل جائے تو ….،