تحریر: نادیہ خان بلوچ 28 اپریل بروز جمعرات رات 11 بجے میں نے ٹی وی آن کیا ادارہ تھا ٹالک شوز دیکھ کر پاناما لیکس یا پھر موجودہ سیاسی حالات پہ کالم لکھ سکوں. جونہی میں نے ایک نجی نیوز چینل لگایا تو سامنے سکرین پر ایک لڑکی کو تڑپتے دیکھا. جسکا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا. کیونکہ اسکے اوپر پھٹے پرانے دو تین کمبل اوڑھا دیے گئے تھے. مگر اسکے ہاتھوں میں لگاتار حرکت ہو رہی تھی جس سے لگ رہا تھا وہ ابھی زندہ ہے. آس پاس کافی لوگ جمع تھے کوئی ہاتھ میں موبائل لیے ویڈیو بنا رہا تھا تو کوئی خاموش تماشائی بن کے یہ سب دیکھ رہا تھا. پہلے تو مجھے لگا یہ شاید فلم مالک کا ہی کوئی سین ہے. لیکن میری ساری خوش فہمیوں پر نیوز اینکر نے یہ کہتے ہوئے پانی پھیر دیا کہ کراچی میں ایک بھائی نے غیرت کے نام پر اپنی سگی بہن کا قتل کر دیا.
قتل کرنے کے بعد کہ ابھی اسکی سانسیں چل رہی تھیں تڑپتی لاش کو باہر گلی میں چوراہے پر رکھ کے تڑپنے کیلئے چھوڑ دیا. ایک دم مجھے ایسے لگا جیسے وہ قاتل میرے پیچھے آن کھڑا ہو. مجھے ڈر لگنے لگا. ویڈیو پھر مزید دکھائی گئی تو تڑپتی لاش کے پاس اسکا سفاک بھائی جو اسکا قاتل تھا وہ بھی نظر آیا. بہن تڑپ رہی تھی مگر وہ موبائل سے کھیلنے میں مصروف تھا. لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ بھائی ہے؟ بھائی تو کیا کسی احساس سے بھی وہ انسان بھی نہیں لگ رہا تھا. ایک جانور سے بھی بد تر. کیونکہ جانور بھی درد کو محسوس کرتے ہیں. انہیں بھی درد ہوتا ہے. وہ جانور ہوکے بھی انسان کی کبھی نہ کبھی مدد کردیتے ہیں مگر یہ بھائی تو جانور کہلانے کے بھی لائق نہ لگا. اس پہ ایک اور قیامت کہ پاس کھڑے اہل محلہ بھی خاموش تماشائی بنے سب دیکھتے رہے.
کسی کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اسے ڈاکٹر کے پاس ہی لے جاتے. مجھے ایک لمحے کیلئے ان سب وحشی درندوں کے بیچ وہ لڑکی کسی معصوم جانور سے کم نظر نہ آئی. میری نظر میں وہاں موجود ہر شخص جو چاہے ہمسایہ تھا یا جو بھی سب اس قتل میں برابر کے مجرم تھے. کیونکہ خاموش تماشائی بن کر ظلم دیکھنا ظلم کرنے کے برابر ہی ہے. عجب ہے سب لوگ اسے پھر غیرت کے نام پر قتل کہہ رہے تھے. ایسی غیرت پہ ہزار بار بھی ماتم کیا جائے تو تب بھی کم ہے.سڑک کے کنارے کوئی جانور کتا یا بلی بھی نظر آجائے تو اسے بھی انسان بچانے کے کوشش کرتا ہے. اگر وہ پہلے سے زخمی ہو تو اسکا بھی احساس کرتا ہے مگر ظالموں نے تو اسے جانور بھی نہ سمجھا. آئے روز ایسے واقعات سننے کو مل رہے ہیں کہ اب تو لگتا ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ایک عام سی بات بن چکی ہے.
Honor Killings
پہلے مجھے لگتا تھا ایسا صرف ہمارے جنوبی پنجاب میں ہوتا ہے. کیونکہ یہاں ایک تو تعلیم کی کمی ہے دوسرا یہاں اب بھی طبقاتی اور قبائلی نظام موجود ہے. پڑھائی کی کمی کی وجہ سے عورت بھی اپنے جائز حقوق سے آگاہ نہیں.مگر لاہور کراچی جیسے شہروں میں ایسا نہیں ہوتا ہوگا. مگر اس واقعے نے ثابت کردیا کہ بھیڑیے کسی بھی جگہ ہوسکتے ہیں چاہے وہ جنوبی پنجاب کا پسماندہ علاقہ مظفرگڑھ ہو یا پھر پاکستان کا سب سے بڑا شہر یعنی روشنیوں کا شہر کراچی ہی کیوں نہ ہو. میرے مطابق کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں کم از کم لڑکی کو چاردیواری میں قید نہیں کیا جاسکتا. جہاں لڑکی کو مکمل آزادی ہوتی ہے. لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ کام کرتی ہیں انکے ساتھ بڑھتی ہیں اس پہ کسی کو اعتراض نہیں ہوتا.مگر یہ بھی تو اس روشنیوں کے شہر کراچی کا واقعہ ہے.
میں نے اپنی آنکھوں سے غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو دیکھا ہوا ہے. سب کا ایک ہی موقف ہوتا ہے کہ بھائی ہم تو مرد ہے. غیرت تو ہوگی ناں. جب ہماری بہن بیٹی کسی غیر مرد سے بات کرے گی تو غصہ تو آئے گا ناں. ہم بے غیرت تو نہیں. کہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہیں. اسلام میں عورت کو گھر کی عزت کہا گیا.
جب عزت اس طرح کرے تو قتل ہی کریں گے. چلیں ہم سب ایک منٹ کیلئے یہ مان بھی لیں کہ ہاں واقعی عورت ذات کو یہ سب زیب نہیں دیتا. اسکے یہ قول و فعل ٹھیک نہیں تو ذرا یہ غیرت مند بھائی یہ بھی بتائیں گے کہ وہ اپنی ذات کیلئے کسی دوسرے کی ماں بہن بیٹی کے ساتھ ایسے تعلقات کی بنا پر غیرت کے نام پر قتل ہونا قبول کریں گے؟ کیا وہ کسی عورت کے ساتھ بات نہیں کرتے؟ بات نہ سہی کیا نظر غلط سے نہیں دیکھتے؟ سچ کہوں تو یہ غیرت کے نام پر قتل انہی گھروں میں ہوتے ہیں جس گھر کے مرد خود بے حیا بے شرم ہوں. جو خود کسی دوسرے کی بہن بیٹی کے ساتھ کچھ غلط کرچکے ہوں اور انہیں ڈر ہو کہ اب ہماری سزا ہماری بہن بیٹیوں کو نہ ملے. کب تک ایسا ہوتا رہے گا؟ کب تک عورت کو مرد کی جاگیر سمجھا جائے گا؟ اسلام کے نام پر عورت کو جانور سمجھنے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اسلام میں تو سب قانون مرد اور عورت دونوں کیلئے برابر ہیں.
Woman
اسلام میں تو زنا کی سزا کے حقدار مرد اور عورت دونوں کو کوڑے مارے جانے کا حکم ہے. تب بھی قتل کا نہیں کہا گیا. پھر کیسے کوئی مرد عورت کو اپنی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرسکتا ہے؟ جوں جوں ہم ترقی کی بات کرتے جارہے ہیں اتنا عورت کو زلالت اور پستی میں دھکیلا جارہا ہے. کہیں مرد نے عورت کی آزادی کے نام پر عورت تک پہنچنے کی آزادی حاصل کرلی ہے تو کہیں مرد نے اپنے گناہوں کی سزا بھی عورت پہ ڈال کر اسے قتل کرنے کی جائز وجوہات ڈھونڈنا شروع کردیں اور نام دیا کہ میں مرد ہوں.
عورت اب ایک ایسا موضوع بن چکی ہے جسکے حقوق و فرائض پہ بات تو سبھی مرد کرتے ہیں مگر یاد انہیں صرف فرائض رہتے ہیں. قانون بھی بن جاتے ہیں پھر تنقید بھی ہوجاتی ہے مگر قانون پہ عملدرآمد کرانا کسی کو بھی یاد نہیں رہتا. ایسے موضوع پر میں اور آپ بات کرتے یا پھر کالم لکھتے تھک تو سکتے ہیں مگر یہ مسلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا. میرا بہت دل کرتا ہے کہ کاش کوئی عورت بھی کسی مرد کا قتل کرکے یہ کہے کہ میں نے غیرت کے نام پر قتل کیا. پھر میں دیکھوں ان مردوں کو جو غیرت کے نام پر قتل کو حق سمجھتے ہیں.