تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید شیخ جی تقریری مشق کو جاری رکھنے اور اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں زندہ ثابت کرنے اور اپنی سیاسی ٹھر ک کو پورا کرنے کی غرض سے کی بن بلائے مہمان کی حیثیت میں پی ٹی آئی کے ہر اُس جلسے اور دھرنے میں آموجود ہوتے ہیں ۔انہیں اس بات کی بھی فکر نہیں ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں۔ کوئی انہیں بن بلایا مہمان کہتا ہے تو کوئی موصف کو اُ ن کے نِک نیم سے پکارتا دکھائی دیتا ہے۔کئی پی ٹی آئی کے لوگ یہ بھی کہتے ہوئے سُنے گئے ہیں کہ یہ سیاسی یتیم ہیں۔
ان کو کچھ نہ کہو انہوں نے مشرف کا ساتھ دے کر اپنی یتیمی خود ہی اختیار کی ہے اور اب اپنے محسن نواز شریف کے بغض میں ہلکان ہوے جاتے ہیں۔یہ ابن الوقت ہیں کہ جو چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ان جیسے لوگوں کا شیوا ہوا کرتا ہے۔ان میں اور عمران خان میں ایک قدرِمشترک یہ ہے کہ وہ بھی اپنے محسن کو گالیان دینے سے نہیں چوکتے اور یہ تو مثالی محسن کُش ہیں۔عمران خان کا لب و لہجہ ہر شخص جانتا ہے فٹ پاتھی ہوتا ہے۔ ادب تہذیب کا لگتا ہے کہ ان کے سامنے سے کبھی گذر ہی نہیں ہوا ہے۔حلقہ این اے 122 کی شکست کا نوشتہ دیوار انہوں پڑھ لیا ہے۔ لہٰذا انہیں کسی کل چین نہیں آرہا ہے۔یہ ہماری پیشنگوئی ہے اگر عمران خان کا لنگڑا گھوڑا ہار کیا تو دھاندھلی کا شور موصوف ایسا شروع کریں گے کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہ دیگی۔
لوگوں نے عمراں خان کو 2013 کے انتخابات میں ایسا مسترد کیا تھا کہ موصوف چوکڑی بھول گئے تھے۔انہیں کوئی بتادے کہ یہ کر کٹ کا میدان نہیں ہے۔جہاں تمام کھلاڑی ان سے سہمے ہوا کرتے تھے اور یہ کرکٹ کے میدان کے راجہ اِندر ہوا کرتے تھے۔سیاست میں ان کی راجہ اندر کی سوچ کو نواز لیگ کا ایک کارکن ہی تباہ کرچکا ہے جس کا شور انہوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر کیا تھا۔یہ جس لابی کی نمائیندگی کرتے ہیں اس کے متعلق پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ مادر پدر آزاد لوگ ہیں ۔جن کے نزدیک اخلاقیات کا تصور اُلٹا ہے۔پھر اخلاقی میدان میں بھی موصوف انتہائی پست مقام کے مقیم ہیں۔سیتا وائٹ کی کہانیاں بھی ہمارے میڈیا پر ان کے ساتھی سیاست دان ہی لاتے اور سُناتے رہے۔ہیں۔کیا ہمارا معاشرہ ایسے شخص اورایسے لوگوں کوملک کی حکمرانی کی باگ ڈور دے گا؟؟؟ ہمیں تو جماعتِ اسلامی کی سوچ پر بھی جب سے عمران خان اور ان کے لوگوں سے ناطہ جوڑا ہے شک ہو رہا ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ اقتدار کی بھوک لوگوں کے اخلاقیات تک کو بدل دیتی ہے۔
Imran Khan
یہ بات روزِ روشن کی طرح ہے کہ عمران خان کا دوستی کا ناطہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے بھی ہے۔فیس بک پر کسی دوست نے موصوف کی نتن یاہو کے ساتھ بنائی گئی تصویر کو شیئر کی تھی۔ جو آج بھی فیس بک پر ملا حظہ کی جا سکتی ہے۔بیرنی دنیا اور خاص طور پر یہودی لابی سے موصوف کو حکومتی اعداد و شمارکے مطابق فنڈنگ کا ایک پرانا سلسلہ چلا آرہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پرویز رشید جیسا دھیمے لہجے کا آدمی بھی چیخ اٹھا کہ عمران خان پاکستان کا دشمن،ہے اور جو نا صرف چور ہے بلکہ غدارِ وطن بھی ہے۔جس نے پارلیمنٹ پر حملے کی غرض سے یہودی اور ہندو لابی کے فنڈز بھی استعمال کیئے۔پی ٹی آئی کے چیئر مین دشمنوں کا آلہء کا بن کر ملک کر تباہ کرنا چاہتا تھا۔
یہ بات ایک حکومتی ذمہ دار،وفاقی وزیر اطلاعات کہہ رہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بات اگر غلط ہے توعمران خان مجھے عدالت میں لے کر جائیں انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں غیر ملکی عطیات کے ثبوت بھی میڈیا کے سامنے پیش کئے۔ان عطیات کی دستاویز ات عمران خان نے اپنے دستخطوں سے امریکی جسٹس ڈپارٹمنٹ کو فراہم کی ہوئی ہے۔اس ضمن میں جب کیپیٹل ٹاک میں حامد میر نے جہانگیر ترین سے سوال کیا کہ کیا وہ اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائیں گے ؟تو جہانگیر ترین کا کھیساتے ہوے جواب تھا کہ وزیر اطلاعات مذاق کر رہے ہیں ۔ گویابات ثابت ہے کہ انہیں ہندو اور یہودی لابی سے فنڈنگ ملتی رہی ہے۔ورنہ وہ شخص جس کا نہ تو کوئی کاروبار ہو اور نہ سرمایہ دارو ہو کیسے تیس پینتیس کروڑ روپے دھرنوں پر خرچ کرنے کے قابل ہو گیا۔یہ تو خیر سب ہی مانتے ہیں کہ ان کو لوگ بھیک میں اور زکوة خیرات کی مد میں بھی پیسہ دیتے ہیں جس کا پاکستان کی سیاست میں رہ کر عمران خان mis use کرتے ہیں ۔کوئی ہے جو ان سے پوچھے کہ زکوة خیرات کا پیسہ اپنی من مرضی سے سیاست میں موصو ف کیوںاستعمال کرتے ہیں؟؟؟
Nawaz-Sharif
عمران خان کو دکھ یہ کھائے جا رہا ہے کہ نوازشریف کی ن لیگ نے 2013 کا میدان کیسے مار لیا۔موصوف کہتے ہیں کہ نواز شریف کرپٹ ترین شخص ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پی ٹی آئی خاموش کیوں بیٹھی؟؟نیب کا دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹا رہی ہے؟ اس نے نواز شریف کی کرپشن پر انہیں عدالتوں میں کیوں نہیں گھسیٹا؟؟وجہ اس کی یہ ہے کہ موصوف اخلاق سے گری ہوئی باتوں کے ماہر ہیں اور جہاں کہیں بھی اور جتنے بھی الزمات لگائے ہیں کہیں بھی ثابت کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ہیں۔گالی گلوج اور ہر ہر معاملے میں جھوٹ بولنا موصوف کا مزاج ہے۔ کیا پاکستان کے لوگوں کا مقدر ایسے سیاست دا ن ہیں ؟؟؟عمران خان کہتے ہیں کہ درباریوں کے بجائے خود بات کریں۔
کیا عمران خان کی طرح ایک با عزت پاکستانی معزز شہری اور ملک کے عظیم عہدے پر متمکن زیراعظم بھی۔ ان کی طرح گز بھر کی بازاری زبان استعمال کرنا شرع کردیں۔عمراں خان صاحب آپ کے ماضی سے ساری قوم و واقف ہے ۔اپنے آپ کو مزید ایکسپوز نہ کرائیں کہ آپ اس ملک کے وزارت عظمیٰ کے خواب دیکھ رہے ہیں۔پاکستانی قوم کو بد اخلاق اور کردار سے عاری وزیرِ اعظم نہیں چاہئے۔ اس قوم کو با کردار رہنما چاہئیں جو خود بھی عزت کا حامل ہو اور دوسروںکی بھی عزت کرتا ہو۔
یہ ہوتی ہے خاندانی کی بات کہ وزیر اعظم پاکستان ننگ دھڑنگ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ۔میں آپ کی گالیوں پر دعا دیتا ہوں کہ اللہ آپ کو نیک ہدایت دے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کنٹینر پر چڑھ کر اور بجلی کے بل جلادینے سے بجلی نہیں آئے گی۔انہوں نے ماضی کا مقولہ ذہن میں رکھتے ہوے ”پڑھو گے لکھو گے بنو کے نواب!کھیلو گے کو دوگے ہوو گے خراب” کہا کہ کھیل کود والے سیاست داان گالیوں کی سیاست چھوڑیںملک کی ترقی کنٹینر پر چڑھنے والوں کے بس کی بات نہیں۔ گویامخمل میں لپیٹ کرعمران خان کا آلودہ جوتا اُن کے منہ پر مار کراپنی شرافت کا بھرم بھی بر قرار رکھا اور اپنے مخالف کو سُتھرا جواب بھی دیدیا۔
Shabbir Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir23hurshid@gmail.com