شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں ’داعش‘ کے خاندانوں اور دیگر شدت پسندوں کے لیے قائم کردہ ’الہول کیمپ‘ کے عہدیداروں نے اطلاع دی ہے کہ جنوری سے اب تک شمال مشرقی شام کے اس کیمپ کے اندر 70 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس کیمپ میں ’داعش‘ کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد تنظیم سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندانوں سمیت 62 ہزار خاندانوں کو رکھا گیا تھا۔ مگر اس وقت یہ کیمپ شدت پسندوں کےحملوں کا ہدف ہے اور آئے روز وہاں پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق الہول کیمپ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور مایوس جگہ بن گیا۔ مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ یہ مذہبی انتہا پسندی پرامن لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ قتل کا الزام اکثر سخت گیر خواتین پر عائد کیا جاتا ہے جو سیکیورٹی کی ناقص صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئےمن مانی کرتی ہیں۔
کردوں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے کیمپ کے عہدیداروں نے بتایا کہ پستول ، چاقو اور دیگر ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے لیے سیکورٹی چھاپوں کے باوجود قیدیوں اور محافظوں کےدرمیان جھڑپوں میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
محمد بشیر جو محافظوں کے ایک دستے کے نگران ہیں کا کہنا ہے کہ کیمپ کے اندر کچھ لوگ فورسز پر گھات لگائے بیھٹے رہتے ہیں۔ یہ لوگ امدادی کارکنوں پر پتھر پھینکتے ہیں۔ ان کے دفتر کے باہر شدت پسندوں نے ایک جیولری شاپ میں لوٹ مار کی۔
کیمپ میں موجود خواتین کو اکثر سامان خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض اوقات لوگ فرار کے لیے سمگلروں کو پیسے دیتے ہیں اور رقم لوٹ مار سے اکھٹا کرتے ہیں۔
مایوسی کی حالت میں قیدیوں کے پاس صرف چند خواب باقی ہیں۔وہ اپنے گھروں کو لوٹنا چاہتے ہیں۔ کیمپ میں دنیا کے درجنوں ممالک سے شامی ، عراقی اور دیگر غیر ملکی آباد ہیں۔
یہ کیمپ 1990 کی دہائی میں بے گھر عراقیوں کے لیے ایک چھوٹے سے کیمپ کے طور پر کھولا گیا تھا لیکن امریکی حمایت یافتہ افواج نے ’داعش‘ کے پکڑے گئے شدت پسندوں اور ان کے خاندانوں کو یہاں لایا گیا۔ سنہ 2019ء میں اس کیمپ کو ایک کھلی جیل کا درجہ دیا گیا۔
چند ہفتوں کے اندر اس کی آبادی 55،000 سے تجاوز کرگئی جس کے بعد وہاں پر انسانی تباہی سامنے آنے لگی۔ امدادی کارکنوں نےصورت حال کو بہتر بنانے کی جدو جہد کی اور کیمپ کی کچھ انتہائی بنیاد پرست خواتین نے اپنے ارد گرد کے خاندانوں پر اسلامک اسٹیٹ کے قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش شروع کردی۔ عراقیوں کا شمار انتہائی انتہا پسندوں میں ہوتا ہے جو اب کیمپ کی تقریبا نصف آبادی پر مشتمل ہیں۔
سیاہ رنگ کے کپڑوں سے چہروں کو نہ ڈھانپنے والی خواتین کے خلاف کیمپ کے اندر نام نہاد عدالتوں میں مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ خواتین اور بچوں سمیت ہرایک کو جہادی علامات اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ کیمپ میں لوگوں کے اندر مایوسی اور پریشانی پھیلی ہوئی ہے۔