کینیڈا کی مداخلت’ سعودی عرب کا جرأتمندانہ جواب

Canada - Saudi Arabia

Canada – Saudi Arabia

تحریر : منذر حبیب

سعودی عرب نے سفارتی آداب اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر کینیڈا کے ریاض میں متعین سفیر کوناپسندیدہ قرار دے کر چوبیس گھنٹے میں ملک چھوڑے کا حکم دیاہے اور اپنے سفیر کو وہاں سے واپس بلا لیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کر دہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ کینیڈین وزیر خارجہ اور ریاض میں کینیڈا کے سفارت خانے کی جانب سے گرفتار افراد کی ”فی الفور رہائی” کے مطالبہ پر مبنی بیانات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا جس کے بعد سعودی عرب نے واضح طور پر قرار دیا ہے کہ سعودی عرب کسی ملک میں مداخلت نہیں کرتا اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اپنے معاملات میں مداخلت کی اجازت دے سکتا ہے۔ سعودی عرب نے کینیڈا سے نئے تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری کے منصوبے معطل کر دیے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ سعودی عرب اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر مزید تدابیر اختیار کرنے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے کینیڈین سفیر کو ملک بدر کرنے کا اعلان کرتے ہی صرف پانچ منٹ میں کینیڈا کی کرنسی گر گئی ہے۔

سعودی عرب میں ریف بداوی نامی ایک نام نہا دبلاگر کو2012میں گرفتار کیا گیا جس نے ”فری سعودی لبرلز” کے نام سے ایک ویب سائٹ بنا رکھی تھی اور اسلامی اقدا ر کے خلاف مواد اپ لوڈ کرنااور لبرل خیالات کا پرچارمعمول بنا رکھا تھا۔ وہ مفتی اعظم سعودی عرب سمیت دیگر مذہبی رہنمائوں، علماء کرام اور اسلامی شعائر کے خلاف گھٹیاپروپیگنڈاکرتا اور سعودی عرب کی مذہبی پولیس کو بھی اکثر نشانہ بنا تا رہتا تھا۔ اسلامی شعائر کی گستاخیوں میں اس کی بیوی بھی اپنے شوہر کے ساتھ تھی۔ یہ کبھی خواتین کے پردہ اور برقعہ کا مذاق اڑاتے تو کبھی اسلامی کلچر و ثقافت کیخلاف ہرزہ سرائی کی جاتی۔ ریف بداوی جیسے نام نہا دبلاگرز کی گستاخیوں پر سعودی حکومت نے بہت تحمل سے کام لیا لیکن جب سوشل میڈیا پر ان کی گستاخیاں دن بدن بڑھتی گئیں اور سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل کا اظہا رکیا تو سعودی پولیس نے چھ سال قبل ریف بداوی کو حراست میں لے لیا’ سائبر کرائمز کے تحت اس پر مقدمہ بنا اور پھر اس کی ویب سائٹ بند کر دی گئی۔ سعودی عرب میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ اس بات کا قوی امکان تھا کہ ریف بداوی کو بھی سزائے موت سنادی جائے گی لیکن جب اس نے جج کے سامنے یہ اعتراف کیا کہ وہ مسلمان ہے اور اپنے کئے پر نادم ہے تو اسے سزائے موت تو نہیں سنائی گئی البتہ توہین آمیر نیٹ ورکنگ ویب سائٹ چلانے والے اس شخص کو سات سال قید اور چھ سو کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ جون 2012ء میں بداوی پر یہ الزام بھی لگایا گیاکہ وہ اپنے والد کا نافرمان ہے۔سعودی عرب میں اس عمل کو بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔توہین اسلام کے مرتکب بداوی کو جب سزا سنائی گئی اور جدہ کی ایک مسجد کے باہر اسے پہلی مرتبہ پچاس کوڑے لگائے گئے تو فرانس، کینیڈا اور بعض دیگر ملکوں اور بین الاقوامی اداروںنے آسمان سر پر اٹھا لیا اور آزادی اظہار رائے کی بات کرتے ہوئے اس کی رہائی کے مطالبے کئے جانے لگے۔ ریف بداوی کی گرفتاری اور سزا سنانے پر چیخنے والے سب ملک اور ادارے وہی تھے جو قرآن پاک کی توہین اور شان رسالت میں (نعوذ بااللہ) گستاخیوں پر تو خاموش رہتے ہیں اور جب مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا جاتا ہے تو یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا حق ہونا چاہیے۔ یہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے ملکوں میں تو کسی کو حق بات کرنے کی اجازت نہیں دیتیں اور توہین اسلام کرنے والوں کی سرپرستی میں یہ سب ملک اور ادارے ایک ہو جاتے ہیں۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے بداوی کی گرفتاری اور سزا کو آزادی اظہا ر رائے کیخلاف قرار دیا۔اسی طرح کینیڈااور دوسرے ملک بھی سعودی عرب میں اسلامی سزائوں کیخلاف پروپیگنڈا میں پیش پیش رہے ہیں۔

اسلامی شعائر کی توہین کرنے والے بلاگر ریف بداوی کو سزا ہوئی تو اس کی بیوی انصاف حیدرکینیڈا بھاگ گئی اور وہاں جا کرسوشل میڈیا پر اسلامی تعلیمات اور سعودی عرب کیخلاف محاذ کھول لیا۔ اسی طرح بداوی کی بہن ثمر بداوی نے بھی سوشل میڈیا پر زہر اگلنا شروع کر دیا جس پر چند دن قبل اسے سعودی عرب میں گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب میں سول سوسائٹی کی بعض خواتین کو عورتوں کی ڈرائیونگ کے حق میں بات کرنے پر حراست میں لیا گیا ہے تاہم یہ پروپیگنڈہ حقائق کے بالکل منافی ہے۔ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز او رولی عہد محمد بن سلمان تو خود سعودی عرب میں ایسے اقدامات اٹھا رہے ہیںاور خواتین کو ڈرائیونگ کی بھی اجازت دے دی گئی ہے لہٰذا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈا کے ذریعہ محض برادر اسلامی ملک کی کردار کشی کی جارہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسے بدنام کرنے کی مہم چلائی جارہی ہے۔ ریف بداوی، اس کی اہلیہ انصاف حیدر اور اس کی بہن ثمر بداوی کے ٹویٹر اکائونٹس اور سوشل میڈیا پر جاری سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ثمر بداوی اور انصاف حیدر کی انہی اسلام مخالف سرگرمیوں پر بین الاقوامی سطح پران کی پذیرائی کی جارہی ہے۔ ثمر بداوی نے ہیلری کلنٹن اور اوبامہ کی بیوی کے ساتھ بنوائی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کے رابطے نچلی سطح کے نہیں ہیں۔

کینیڈا بھی توہین اسلام میں ملوث اس گروہ کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی کینیڈا نے بداوی کی اہلیہ انصاف حیدر اور اس کے تین بچوں کو اپنے ملک کی شہریت دی ہے اور اب حال ہی میں جب ثمر بداوی اور بعض دیگر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو گرفتار کیا گیا تو کینیڈا کے پیٹ میں ایک مرتبہ پھر مروڑ اٹھے ہیں اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے فوری طور پر یہ کہہ دیا کہ سعودی عرب گرفتار افراد کو ”فی الفور رہا” کرے لیکن شاید اسے یہ بات معلوم نہیں کہ سعودی عرب میں قانون کی حکمرانی ہے اور توہین اسلام کے حوالہ سے سخت سزا کے قانون نافذ ہیں۔ گرفتار افراد کو پبلک پراسیکیوٹر نے ایسے جرائم کی وجہ سے گرفتار کیا ہے جو حقیقی طور پر سزا کے مستحق ہیں ۔ گرفتار افراد کو ملزم کی حیثیت سے تمام حقوق حاصل ہیں اور انہیں تفتیش اور عدالتی کاروائی کے دوران اپنے بے گناہی ثابت کرنے کی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ یہ برادر اسلامی ملک کی تاریخ ہے کہ وہ اپنے ملک کے عدالتی امور میں اس طرح کبھی مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ کینیڈا کا موقف ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں ہے۔ وہ سفارتی آداب اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی عرب کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش کرے گا تواس سے معاملہ حل ہونے کی بجائے اور زیادہ بگڑے گا۔

کینیڈا کا حالیہ موقف سعودی عرب پر جارحانہ حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ برادر اسلامی ملک نے بھی جرأتمندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے وہی طرز عمل اختیار کیا ہے جو اس کی اپنی خودمختاری کا ضامن ہے۔ کینیڈا کے طرز تخاطب کوکسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس ضمن میں اگروہ اپنے رویہ کو درست نہیں کرتا تواس کا مطلب یہی سمجھا جائے گاکہ سعودی عرب کو بھی کینیڈا کے معاملات میں مداخلت کرنے کا مکمل حاصل ہے۔ کینیڈا کو معلوم ہونا چاہئے کہ سعودی عرب کی حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی حریص ہے اس لئے اسے زیادہ ٹھیکیدا ر نہیں بننا چاہیے۔ نیوز ویب سائٹ حرمین نیوز ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی لین دین بڑے پیمانے پر جاری تھا اور 2015کے دوران یہ تجارتی لین دین 4ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا جبکہ 2016ء سے تاحال اس میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم سعودی عرب کی طرف سے کینیڈین سفارت کار کو ناپسندیدہ قرار دیکر مملکت سے نکل جانے کا حکم دینے کے ساتھ کینیڈین کرنسی گرنے کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔

کینیڈا اگر معاملات مزید بگڑنے سے بچانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سعودی عرب سے معافی مانگے اور توہین اسلام میں ملوث نام نہاد بلاگرز کی سرپرستی کا سلسلہ بند کرے۔ سعودی عرب نے جو جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے ہیںاس پر دنیا بھر میں خاص طور پر مسلمان ملکوں میں اس کی زبردست تحسین کی جارہی ہے۔ مغربی ملک اپنے تئیں مسلمان ملکوں کو اپنی کالونیاں سمجھتے ہیں اورتحکمانہ لہجے میں بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برادراسلامی ملک نے کینیڈا کو منہ توڑ جواب دے کر پوری مسلم دنیا کے دل جیت لئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر مسلمان ملک بھی مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب جیسا رویہ اختیار کریں اور متحد و منظم ہو کربین الاقوامی سطح پر جرأتمندانہ رویہ اختیار کریں تاکہ اسلام کیخلاف گستاخیوں کا سلسلہ روکا جا سکے۔

تحریر : منذر حبیب