کینسر ایک لاعلاج بیماری ہے جی نہیں دور حاضرہ میں طبی ٹیکنالوجی میں اتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ کسی بھی قسم کا سرطان ابتدائی مرحلہ میں تشخیص ہوسکتا ہے اور پھر الٹراماڈرن علاج و معالجہ بھی دستیاب ہے جس سے ہر قسم کے سرطان کے بروقت علاج سے مریض کو بیماری سے چھٹکارا دلایا جا سکتا ہے یا کم از کم اس کی عمر کو بڑھاوا دیا جا سکتا ہے۔ سرطان کا علاج اس بات پر منحصر ہے کہ یہ جسم کے کس نظام کے کس عضو کے کس حصے میں شروع ہوا ہے اور کس حد تک پھیل چکا ہے۔بعض قسم کے سرطان مخصوص علاج و معالجہ کے بعد صد در صد ٹھیک ہوتے ہیں اوربعض قسم کے سرطانوں میں مریض کو تا آخر عمر دوائیاں جاری رکھنا پڑتی ہیں۔ عام لوگوں کےلئے سرطان ایک ہی موذی اور خطرناک بیماری کا نام ہے لیکن علمِ طب میں علم سرطان ایک وسیع و عریض ساگر ہے۔ اب تک لاکھوں قسم کے سرطان تشخیص ہو چکے ہیں اور ہر قسم کے سرطان کی بہت ساری قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر نوع سرطان کا علاج جداگانہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ سرطان ایک لاعلاج بیماری ہے در اصل عدم واقفیت کی وجہ سے ہے۔ سچ تو یہ ہے ہر سرطان کا علاج موجود بشرطی کہ مریض ابتدائی مرحلے میں کسی ماہر معالج سے رجوع کرے۔
ذہنی پریشانی یا اعصابی تناﺅ سے بھی سرطان ہوسکتا ہے ….جی نہیں! طبی دنیا میں ابھی تک ایسی کوئی ٹھوس اور واضح شہادت موجود نہیں ہے جس کی بناء پر یہ وثوق سے کہا جا سکے کہ مسلسل ذہنی پریشانی اعصابی تناﺅ یا کچھاﺅ سے کسی قسم کے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ ٹورنٹوسنی بروک کے ریجنل کینسر انسٹی چیوٹ میں تعینات ماہر امراض سرطان ایلن وارنر،بین الاقوامی شہرت یافتہ میڈیکل جرنل ”لینسنٹ“(Lancent) میں شائع شدہ ایک حالیہ رپورٹ کے حوالے سے کہتی ہیں”
Visual Cancer
ستر(۷۰) تحقیقات کے نچوڑ سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی شہادت سامنے نہیں آئی ہے جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ زندگی میں مصائب، پریشانیاں، دکھ درد، مسلسل ذہنی دباﺅ، تناﺅ اور کھچاﺅ انسانی جسم پر کچھ ایسے اثرات مرتب کرتے ہیں جس سے سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوں.
ہاں محققین نے ایک بات ثابت کی ہے، نااُمیدی اور ہمت کا دامن چھوڑنے سے سرطان میں مبتلا مریضوں کی زندگی ناخوشگوار اور ایک عذاب بن جاتی ہے جب کہ پرُامید اور ذہنی طور پُرسکون رہنے سے سرطان میں مبتلا مریضوں کی زندگی خوشگوار گذرتی ہے اور وہ زیادہ دیر تک زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں رہتے ہیں اگر کوئی مریض سرطان میں مبتلا ہونے کے بعد، اِسے اپنی دُکھ بھری زندگی، ذہنی پریشانیوں اور اعصابی تناﺅ سے جوڑتا ہے تو یہ اس کا اپنا ”احساس“ ہے ورنہ انسان کی زندگی پر دباﺅ ڈالنے والے محرکات کا سرطان کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ سرطان میں مبتلا جو مریض یہ سوچتے ہیں کہ اُن کی بیماری میں اُن کے ذہنی اور نفسیاتی دباﺅ کا دخل ہے، وہ دوسرے مریضوں کی نسبت زیادہ ناامید، افسردہ اور جسمانی طور بدتر نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ محققین سرطان اور ذہنی دباﺅ میں کوئی ربط ڈھونڈنے میں ناکام رہے بلکہ برٹش میڈیکل جرنل میں شائع شدہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یہ بات کسی حد تک ثابت ہوگئی ہے کہ زندگی میں روزمرہ کے ذہنی دباﺅ اور نفسیاتی مسائل عورتوں کو پستان کے سرطان سے بچانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو عورتیں مسلسل ذہنی دباﺅ کا شکار ہوتی ہیں اُن کے جسم میں زنانہ ہارمون ایسٹروجن کم مقدار میں مترشح ہوتا ہے جس سے اُنکے سرطان پستان میں مبتلا ہونے کے امکانات میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔