تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ایمان کے بعد اگر کوئی چیز ہے جس پر انسان سمجھوتا نہیں کرسکتا تو وہ ” صحت ” ہے۔ مگر افسوس صحت کے شعبہ میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں ، پنجاب حکونت نے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے کئے بہت سارا فنڈ بہت سارے وسائل اور پوری حکومتی مشنری کے استعمال کے باوجود بھی وہ کچھ حاصل نہ ہوسکا اجس کی امید تھی، یعنی دعوے وعدے دعوے ہی رہے ہیں ۔ عطائیت کے خاتمہ کے نام پر ہم قوم کو دھوکہ تو نہیں دے رہے؟ یا عطائیت کے خاتمہ سے مراد ” حکمت اور ہومیوپیتھی کا خاتمہ ” ہے۔ دنیا کے نقشہ پر اگر نظر دوڑائی جائے ” پنجاب ” کے علاوہ کوئی ایسا ملک ، صوبہ یا اسٹیٹ نہیں جہاں عام روزِ مرہ کی ادویات پر پابندی ہو، جی ہاں مگر پنجاب میں مستند افراد ہی استعمال و فرخت کر سکتے ہیں ، دنیا کے کسی بھی ترقی یافہ یا ترقی پزیر ملک میں عام سردرد، نزلہ زکام اور بخار سمیت معمولی زخم خراش کی ادویات جیسے پیرا سٹامول، اسپرین یا پائیوڈین وغیرہ کے لئے کسی بھی اجازت نامہ کی ضرورت نہیں ہوتی کوئی امیر ہو یا غریب ، بچہ ہو یا بزرگ، عورت ہو یا مرد ہر نفس باآسانی کسی بھی جگہ سے خرید سکتا ہے جیسے کچھ عرصہ پہلے یہ روزِ مرہ کی عام ادویات چائے پان اور سگریٹ کے کھوکھوں پر بلا روک ٹوک فروخت ہوتیں تھی، پھر عطایت کے خاتمہ کے نام پر صرف ” میڈیکل اسٹورز” پر ہی فروخت کی اجازت دی گئی۔جس کا نتیجے میں عام غریب سفید پوش آدمی معمولی سردرد ، بخار کے لئے زلیل و خوار ہونے لگا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غریب آدمی جو ایک پیراسٹامول گولی کھا کر عام سر درد سے چھٹکارہ پا سکتا تھا، اب اس کو لازمی معالج کے پاس جاناپڑے گا۔
یہاں یہ بتانا بھی لازمی امر ہوگا کہ پنجاب کے بہت سارے دہیات ایسے ہیں جہاں میڈیکل اسٹورز نہیں کیونکہ میڈیکل اسٹورز زیادہ تر شہروں میں اور ہسپتالوں کے باہر ہوتے ہیں دہیاتوں میں نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ میڈیکل اسٹورز والے اپنی طرف سے دوا تجویز نہیں کر سکتے حالانکہ جو بھی بی فامسٹ ہیں وہ پہلے کوالیفائیڈ ڈسپنسرز ہوتے ہیں ، یہ بچارے جب سرکاری چھتری میں ہوتے ہیں تو سرجن اور فزیش کے فراہض سرانجام دیتے ہیں مگر جب ریٹائرڈ ہو جائیں ، 25سالہ تجربہ حاصل کرلیں تب ” پریکٹس نہیں کر سکتے ” اگر پریکٹس کرتے ہیں تو عطائیت کی تلوار تیار ہیں اوروہ سر پر منڈلا رہی ہوتی ہیں ۔ پوری قوم سکتہ کی حالت میں کب پاکستان کے غیور باسیوں کو مستند معالجین مہیا ہوں گئے، اور کب وطن عزیز کو ” عطائی معالجوں” سے چھٹکارہ ملے گا۔ سوچنے والی یہ بات ہیں بے روزگاری مہنگائی کی وجہ سے لوگ لوٹ کھسوٹ، مار کٹائی، قتل و غارت چوری ڈاکے اور جسم فروشی سمیت منشیات جوا شراب اور زنا جہاں عام ہوا ہیں وہاں عطایت میں اضافہ کوئی حیران کن بات نہیں ، قابل افسوس اور دل کو ہلا دینے والی جو بات ہے وہ ہے حکماء اور ہومیوپیتھس سے حسد بغض اور انتقامی کاروئی ، عطائیت کے خاتمہ کے نام پر کریک ڈاؤن وہ بھی عطائیوں کی بجائے ” ہویوپیتھی اور حکمت سے وابسطہ لوگوں پرکسی بے چارے کا چلان محض اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے پیراسٹامول کیوں رکھی ہے؟ تم حکیم ہویا ہومیوپیتھ انگریزی دوا فروخت کرتے ہو ”جرم ” ثابت، کسی کا چلان تم نے پائیوڈین کیوں رکھی ہے؟ یہ انگریزی دوا غیر قانونی کام کرتے ہو۔۔چلان ۔کچھ بے چاروں کو بی پی آپریٹس، اسٹیتھوسکوپ سے ہاتھ دھونے پڑے، میرے ایک دوست کا فون آیا کہ محکمہ صحت ے ملازم نے ”شوگر”چیک کرنے والی مشین اٹھا لی ہے،،، ساتھ چلان۔یقین کرو۔۔۔ کچھ معالجین کے چلان کی وجہ ان کے زاتی استعمال کی ادویات بنی ، اور کچھ معالجین کو چلان کا سامنا کرنا پڑا جو انہوں نے بیماریوں کے نام کا لیٹریچر چھپوا رکھا تھا۔بعض جگہ تو ایسی بھی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ کچھ ادویات ساز کمپنیاں مہشوری کے لئے کتابچے ، اسٹیکر یا اشتہارات چھاپتی ہیں اگر کسی حکیم یا ہومیوپیتھ سے برآمد ہو جائے تو چلان کی پھکی پکی!۔
کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اگر عام استعمال والی ادویات رکھنا یا سیل کرنا عطائیت ہیں تو کیا پورا یورپ عطائی ہے؟کیا امریکہ عطائیت کو ہوا دے رہا ہے وہاں تو کم از کم عام استعمال کی درجوں ادویات پر کوئی پابندی نہیں ۔ اگر پائیوڈین ہومیوپیتھک ڈاکٹرز یا کوالیفائڈ حکماء استعمال کروائے تو عطائیت ہیں کیا تمام سرکاری اور پرائیوٹ سکولز کالجز یویورسٹیز میں ” فرسٹ ایڈ ” کے طور پر نہیں استعمال کروائی جاتی۔جتنے بھی باشعور پاکستانی ہیں کیا سب کے گھر ” پائیوڈین موجود نہیں ہوتی؟ اگر ہوتی ہے تو پھر کہو حکماء اور ہومیوپیتھس عطائیت نہیں ہر گھر عطائیت کا سنٹر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک منظم چال ہے جیسا کہ کڑواٹ والی دوا کیپسول میں بھر کر کھلاتے ہیں تا کہ مریض آسانی اور خوش زائقہ کی وجہ سے نگل جائے۔ کیا یہی کچھ ننہیں ہو رہا۔ یہ وہ سچ ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا اگر آپ مجھ سے اتفاق نہیں کرتے تو پھر بات کرتے ہیں ” عطایت کی فیکٹریوں کے بارے میں ! گھبرائیں مت ۔ سُنئے،پنجاب کی بات کرتے ہیں کیوں کہ زیادہ ہلا گلا پنجاب میں ہی ہے۔پنجاب کا وہ کون سا ہسپتال ہیں جہاں پورا اسٹاف کوالیفائڈ ہے۔ میری مراد ایک سرجن ایک پرائیویٹ ہسپتال بناتا ہیں زخموں کی مرہم پٹی، انجکشن ڈرپس سرجن صاحب نہیں لگاتے جواب ملے گا ڈسپنسرحالانکہ کوالیفائڈ ڈسپنرز کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال میں کام نہیں کرتے کیونکہ کوالیفائڈ پرسن زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے مددمقابل نان کوالیفائڈ پرسن کم تنخواہ میں زیادہ کام کرتا ہے اس لئے کوالیفائڈ کی جگہ عام آدمی کھا جاتا ہے،میں نہیں کہتا کہ یہ عطائیت ہے ؟ آپ بتائیں یہ کیا ہے؟ دس پندرہ سال بعد جب وہ اپنے کام میں تجربہ کی بنا پر ماہر ہو جاتا ہے تو پھر وہ تنخواہ بھی زیادہ چاہتا ہے اور کام بھی کم کرتا ہے جس کی دو وجوہات ہوتیں ہیں اول ڈاکٹر صاحب اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں کیونکہ اب اس کے ناز اور نخرے بھی بڑھ چکے ہوتے ہیں اوروہ میل ملاپ اور ڈاکٹر صاحب کے رازو نیاز کمیشن گھریلو معاملات میں دخل اندازی کرنے لگ جاتا ہے اور جب وہ زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو ہسپتال سے چھٹی کروادی جاتی ہیں۔
Pakistani Doctors
دوسری طرف جب ایسے عادمی نامی گرامی ڈاکٹرز سرجن کے ساتھ طویل عرصہ تک کام کرتے ہیں تو تجربہ مہارت بھی حاصل ہو جاتی ہیںاور مریضوں کا اعتماد وہ ویسے ہی حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ اور رہا مسلہ ” محکمہ صحت ” کا تو وہان بھی وہ اپنا اچھا خاصا اثرو سوخ بنا چکا ہوتا ہے۔ اور جو کسر رہ گئی ہو وہ بابائے قوم ” قائد اعظم محمد علی جناح ”کی تصویر والے وہ کاغزات پوری کردیتے ہیں جن کو عرف عام میں ”نوٹ ” کہا جاتا ہے۔ کتنی یہ عجیب بات ہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز گھر گھر جا کر وہ ادویات مفت تقسیم کر رہی ہوتی مثلاً پیرا سٹامول ، فوللاد والی گولیاں ، پیٹ کے کیڑوں والی ادویات سمیت زنانہ اور مردانہ امراض میں استعمال ہونے والی میڈیسن ۔یعنی جن کی بنا پر بے چارے حکیموں اور ہومیوڈاکٹرز کو ذلالت رسوائی اور بعض کو ڈواخانے سیل بھی کروانے پڑتے ہیں ۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کیا کل یہی لیڈی ہیلتھ ورکرز سرکاری چھتری ( ریٹائرڈمنٹ) کے بعد استعمال کروائیں گئی تو ” عطائیت کے خاتمہ والی تلوار ” کا نشانہ بنے گئی۔۔جیسا ڈسپنسروں کو قربان ہونا پڑتا ہے۔ ہومیوپیتھی، طب اور ایلوپتھی ( انگریزی طریقہ علاج ) کو آپ یہ سمجھ لیں کہ ایک سنی فرقہ ہے ایک وہابی فرقہ ہے اور ایک فرقہ جعفریہ ہے اب اگر ایک فرقہ کو سبقت دیکر دوسرے دونوں کی نگرانی دی جاء تو کیا وہ اپنے علاوہ کسی کو صحیح سمجھے گا؟ ہر گز نہیں بلکل ایسے ہی عطائیت کے خاتمہ کے لئے سب کچھ ایلوپیتھی کو دے دیا گیاجس نے عطائیت کے خاتمہ کو ختم کرنے کی بجائے ہومیوپیتھی اور حکمت کو بدنام کیا ، غیر ضروری چلان کئے تا کہ اپنی اجارہ داری بھی قائم رکھی جا سکے اور عوام کے خون پسنے کے پیسوں سے عیاشی بھی ہوتی رہے۔اور بے چارے حکیموں اور ہوموپیتھک ڈاکٹرزکی بدنامی ذلالت اور عدالتوں پر بوجھ ا ضافی محض ہومیوپیتھی اور حکمت سے بغض کی بنا پرڈرگز کورٹس کی چکی میں پستے رہیں ۔
ملک عزیز سے عطائیت کے خاتمہ کے لئے بلا تفریق کاروائی کرنی ہوگئی، درجہ چہارم کے وہ ملازم جو محکمہ صحت میں بطورڈرائیورز ٹیکنیشنز۔ ویکسینیٹرزسینٹری انسپیکٹرز ،وغیرہ پریکٹس کر رہے ہیں ان کے خلاف کاروئی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے !اگر عطائیت کا خاتمہ کرنا ہے تو ” عطائیت کی فیکٹریوں ” کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ پرائیویٹ ہسپتال جو اکثر محکمہ صحت کے افسران ، ڈاکٹرز اور ڈائریکٹرز صاحبان کے ہوتے ہیں ایسی جگہوں پر گنتی کے دو چار کوالیفائڈز معالجین ہوتے ہیں باقی 90 % عطائی ہوتے ہیں، اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ وہ اعلیٰ ڈگری ہولڈرز کی زیرِ نگرانی چل رہے ہوتے ہیں اگر آپ غوروغوض کریں تو معلوم پڑے گا کہ یہ اعلیٰ پائے کے ڈگری ہولڈرز کا صرف ایک ہسپتال ہی نہیں بلکہ درجوں کے حساب سے ہوتے ہیں جہاں مریضوں کی تعداد درجوں اورسیکٹروںمیں نہیں ہوتی بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہیں۔
ملک عزیز سے عطائیت کا کینسر ختم کرنے کے لئے نمبر ایک :۔ عام روز مرہ، مرہم پٹی جیسے معمولی ادویات بلا روک و ٹوک رکھنے کی اجازت دی جائے تا کہ عام غریب شہری جو دور دراز علاقوں میں مقیم ہیں وہ معمولی سردر یا معمولی چوٹ کے لئے اپنے آپ کو ” بوجھ ” نہ سمجھے بلکہ عام کریانہ پرچون یا حکیم وغیرہ سے پیرا سٹامول کھا کرگزارہ کر سکے۔ نمبر 2:۔ لوگوں کو ” آگائی ” دی جائے، اس مقصد کے لئے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کو استعمال کیا جائے۔ نمبر 3 :۔ جماعت ششم سے” حفظانِ صحت ” کے نام سے سلیبس میں مواد شامل کیا جائے تا کہ کوئی پاکستانی شہری تعلیم ادھوری چھوڑ کر ” پرائیویٹ ہسپتالوں ” میں قیمتی وقت برباد کر کے ” عطائی” نہ بن سکے۔ نمبر 4 :۔ پرائیویٹ کلینکس، ہسپتال، شفا خانوں میں کام کرنے والے تمام خواتین و حضرات کا ” ڈیٹا”محکمہ صحت کو ہر ماہ دینے کا پابند ہو تا کہ غیر مستند افراد سے کام نہ لیا جائے اور عطائیت کی فیکٹریز خودبخود ختم ہو جائیں ۔ نمبر 5 :۔ ہر ہسپتال ، کلینک اور دواخانہ کو پابند کیا جائے کہ اس کا ڈیٹا ”آن لائین” ہو اور اس میں اس بات کی وضاحت ہو کون کیا کام کرتا ہے، فیسوں کا شیڈول کیا ہے۔ درجہ چہارم سے ڈائریکٹرز تک سب کی تعلیمی قابلیت اور پروفیشنل تعلیم اور اوقات کار کی مدلل وضاحت ہو ۔ نمبر 6:۔ ایسے لوگ جن کے پاس میڈیکل فیلڈ کی کسی بھی قسم کی تعلیم ہے ان کو ” خصوصی ٹرینگ ” دی جائے تا کہ وہ ” فرسٹ ایڈ” کے فراہض لیگل طریقہ سے سر انجام دے سکیں اور ملکپر بوجھ بھی نہ بن سکیں۔نمبر 7 جن کے پاس کچھ بھی نہیں ان کو کام تجربہ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ عمر کے مطابق پرائیویٹ ہسپتالوں میں کھپایا جائے تا کہ ان کے گھر فاقوں کی نوبت بھی نہ آئے اور وہ کسی پر بوجھ بی نہ بنے۔ نمبر 8 :۔ عطائیت کے خاتمہ کی مہم میں ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ، مستند حکماء اور میڈیا کو بھی شامل کیا جائے تا کہ شک و شبات پیدا ہی نہ ہو سکیںاور قوم کو” عطائیت کے کینسر” سے بچایا جا سکے!اور ہومیوپیتھی اور طب کو نعمت خداوندی سمجھا جائے۔