جی نہیں! یہ بیماری کسی بھی عمر میں کسی بھی جنس سے وابستہ کسی بھی فرد کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے دور حاضرہ کے سائنس دانوں نے یہ بات ثابت کی ہے کوئی بھی سرطانی بیماری زندگی کے کسی بھی موڑ پر کسی بھی شخص کو اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ بعض سرطان کم عمر بچوں میں بھی پائے جاتے ہیں مثلاً خون کی سرطانی بیماریاں نو عمر بچوں میں عام ہیں۔ ہاں یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ سرطان میں مبتلا ہونے کے امکانات عمر رسیدگی کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں۔لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں سرطان کا آغاز کسی بھی سن میں ہوسکتا ہے۔ اس بیماری سے کسی بھی عمر میں مضر نہیں ہے۔
صرف کم عمر مریضوں کو علاج و معالجہ سے خاطرخواہ فائدہ ملتا ہے بڑھاپے میں کوئی شخص سرطان میں مبتلا ہو اس کا علاج کرنا بے معنی ہے۔ ….جی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سن بذاتِ خود سرطان کے علاج و معالجہ میں اہمیت نہیں رکھتا محققین کا کہنا ہے کہ سرطان کا علاج شروع کرنے سے پہلے مریض کی جسمانی و ذہنی حالت اس کا طرز زندگی اور اس کی”دوسری بیماریوں“ اور اسکے خاندان وغیرہ کا دیکھنا زیادہ ضروری ہے اسّی برس کے سرطانی مریض اگر جسمانی و ذہنی طور سالم ہوں اور ان کے خاندان سے وابستہ افراد کی اوسط عمرزیادہ ہو تو جراحی، ریڈیوتھرپی اور کیموتھرپی سے ان کا کامیاب علاج ہو سکتا ہے شرط صرف یہ ہے کہ مخصوص طبی شعبوں سے وابستہ مخصوص و ماہر معالجین کی ایک منظم ٹیم اُنکا مل جل کر علاج کریں۔ سرطان کا علاج کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے اور اس سے ہر سن سے وابستہ افراد کو خاطرخواہ فائدہ ملتا ہے۔