تحریر: سعیداللہ سعید سپریم کورٹ آف پاکستان سے نا اہلی کا سند لینے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ان دنوں کافی جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہا ہے، میاں صاحب کے خیالات اور ان کے بعض قریبی رفقاء کے بیانات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ دانستہ طور پراعلیٰ عدلیہ کو دبائو میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں میاں صاحب اور ان کے دیگر حواری مختلف حربے استعمال کررہے ہیں۔نیب کی جانب سے بار بار بلائے جانے اور میاں صاحب کی جانب سے پیشی سے انکار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ نواز گرو پ نے اب بھی قانون کو گھر کی لونڈی ہی سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پچھلے دنوں وکلاء کنونشن سے میاں صاحب کے تند و تیز خطاب کو بھی ہم اس سلسلے کی ایک کڑی کہہ سکتے ہیں، یہ البتہ نواز گروپ کی بدقسمتی رہی کہ اس کنونشن میں بھی گو نواز گو کے نعرے لگ گئے۔
دوسری جانب وکلاء کی نمائندہ تنظیموں نے اس کنونشن سے لاتعلقی کا اظہار بھی کردیا یوں میاں صاحب کا یہ تیر بھی نشانے پر نہ لگ سکااور موصوف کو لینے کے دینے پڑگئے ۔اس سے پہلے اسی مہم جوئی کا آغاز سابق وزیر اعظم نے ریلی کی شکل میں اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈلاہور جانے سے کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اہل وطن نے نواز خاندان کو مظلوم ثابت کرنے لیے شروع کیے گئے مارچ سے لاتعلق رہ کر ثابت کردیا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے۔میاں صاحب نے ریلی سے مختلف مقامات پر خطابات کیے۔ ان خطابات میں موصوف نے جو لب و لہجہ استعمال کیا وہ ہر گز ایک قومی سطح کے لیڈر کا شایانِ شان نہ تھا۔اس سے پہلے وزیر اعظم ہائوس چھوڑتے وقت اور مری میں قیام کے دوران ان کا انداز اس قدر جارحانہ نہ تھا، جس قدر اس نے جی ٹی روڈ سے گزرتے اور پھر لاہورپہنچ کر مارچ کے شرکاء سے خطاب کے دوران اپنایا۔ اپنے تقاریر و بیانات میں میاں صاحب نے عدلیہ پر کھل کر جبکہ فوج کے خلاف اشاروں کنائیوں میں حد سے زیادہ تنقیدکی۔ اپنے معتقدین کو میاں صاحب نے یہ باور کرانے اور مجموعی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔
میاں صاحب نہایت مظلومیت اور سادگی کے ساتھ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ ان کا قصور کیا ہے؟ نا جانے میاں صاحب کیوں عوام باالخصوص لیگی ورکرز کو کیوں اتنے سادے اور بے وقوف سمجھتے ہیں۔ورنہ تو پانامہ پیپرز کا ایشو اٹھنے کے بعد سے لے کر سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت تک،وہاں سے جے آئی ٹی کی کارروائی اس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے ثبوت فراہم کرنے لیے مزید مہلت دینے اور پھر حتمی فیصلہ سنائے جانے تک عوام سب کچھ دیکھ کر اچھی طرح سمجھ چکے ہیںکہ دال میں کچھ کالا نہیں، بلکہ بہت کچھ کالا ہے۔میاں صاحب! آ پ اور آپ کے وکلاء نے عدالت کووہ ذرائع کیوں نہ بتائے جن سے بچپن ہی میں آپ کے فیملی ممبرز بے تحاشہ امیر ہوچکے ہیں۔ محترم! کیا یہ سچ نہیں کہ آپ نے پارلیمان کے فلور پر جو بولا، عدالت میں آپ کا موقف اس کے برعکس تھا۔میاں صاحب کیا یہ سچ نہیں کہ آ پ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر متعلقہ اداروں کو وہ معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے جو ازراہ قانون فراہم کرنا لازمی ہے۔جناب ! کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ سماعت کے دوران آپ اور آ کے دیگر فیملی ارکان معزز عدالت کو مسلسل گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ کیا ایس ای سی پی کے ظفر حجازی نے ریکارڈ میں ردو بدل سراج الحق صاحب کے کہنے پہ کیا تھا یا عمران خان کے؟میرے محترم یہ اور اس کے علاوہ کئی دیگر وجوہات کے بنا پر آپ تاحیات سیاست سے آئوٹ ہوچکے ہیں۔یہی وجہ کہ آپ اور آپ کے کارندے کبھی آئین سے آرٹیکل باسٹھ ،تریسٹھ نکالنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی عدلیہ کے ہاتھ پائوں باندھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
قارئین کرام! اس سے بڑھ کر شرم کا مقام اور کیاہوسکتا ہے کہ خود کو محمد علی جناح کے پیروکار سمجھنے والے آج برملاء یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی بھی رکن آئین کے آریٹیکل باسٹھ تریسٹھ پورا نہیں اتر سکتا۔حالانکہ دیکھا جائے تو آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ میں ایسی کوئی انہونی بات نہیں کہ جس پر عمل ممکن نہ ہو۔ ان آرٹیکلز میں رکن پارلیمان کے لیے یہ لاز قرار دیا گیا ہے کہ وہ راست باز ہو، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقفیت رکھتا ہو، خائن نہ ہوںاور نہ ہی ملک کے خلاف کسی سرگرمی میں ملوث رہاہوں۔ اب بتایا جائے کہ ان میںسے کون سی بات اتنی مشکل ہے کہ جس پر بندہ عمل نہ کرسکے۔یہ سوچنے کی بات ہے کہ جو شخص ان باتوں پر عمل کرنے سے قاصر ہو کیا وہ اس قابل ہے کہ اسے ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے کا رکن منتخب کیا جاسکے۔
اہل وطن کو اس بارے غور و فکر کرنا ہوگاکہ اسلام کے بنیادی تعلیمات سے بے خبر شخص کو وہ اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے کہیں اپنی عاقبت کو خراب تو نہیں کررہے۔ وطن عزیز کے کئی نامورو مستندعلماء کرام اور مفتیان عظام اس بات پر متفق ہے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور امانت میں خیانت کرنے والا روز محشر اپنے فعل سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے لازم ہے کہ جو بھی بندہ ووٹ دے تو وہ ووٹ دینے سے پہلے امیدوار کو اچھی طرح پرکھے۔ کہیںایسا نہ ہو کہ برادری یا تعلق داری کے چکر میں آکر وہ اس امانت کو ضائع کر بیٹھے اور روز آخرت پروردگار ارض و سماں کے سامنے شرمندگی اٹھائے۔ اہل وطن اگر اس بارے اپنی ذمہ داری پوری کریں تو کچھ عجب نہیں کہ ملک کا تقدیر نہ بدل جائے ۔جب عوام اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائیں گے تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک کے باگ ڈور باکردار لوگوں کے ہاتھوں میں نہ چلی جائے۔پھر اگر قاضی حاکم وقت کو بلائے گا تو وہ بلا چوں و چراں عدالت میںپیش ہوگا۔ پھر نہ تو کوئی عدلیہ کے خلاف بولے گا اور نا ہی کوئی یہ رونا روئے گا کہ مجھے کیوں نکالا۔