کوہاٹ : تمام منتخب امیدواروں کو جنہوں نے کے پی کے کے موجودہ بدیاتی انتخابات میں فتح حاصل کی ہے میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں باالخصوص وہ آزاد امیدوار جنہوں نے احسن کردار اور عوامی خدمت کی مقبولیت کے ذریعے سبھی سیاسی پارٹیوں کو چاروں شانے چت کردیا ہے قابل تحسین ہیں ان خیالات کا اظہار نئی رجسٹرڈ ہونے والی سیاسی جماعت ”اللہ اکبر تحریک ” کے قائد ڈاکٹر میاں احسان باری نے آج دوپہر پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیا ہے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے تحت ان منتخب آزاد امیدواروں کو تین یوم کے اندر اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی۔ وگرنہ انکی سیٹ ختم ہو سکتی ہے ۔
انہوں نے اپیل کی کہ اللہ اکبر متبرک ترین نام ہے جو ھمہ قسم فرقہ واریت ، برادری ازم ، علاقائی و لسانی عصبیتوں سے پاک ہے اس میں شامل ہو کر وہ اسکے پروگرام کی تکمیل کا حصہ بن سکتے ہیں جس نے عوام کو بجلی، گیس ، تعلیم ، علاج، صاف پانی اور اعلیٰ سیوریج سسٹم جیسی سہولتیں مفت فراہم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ایسے سب منتخب امیدوار اگر انہی پارٹیوں میں دوبارہ شامل ہو جائینگے تو یہ انکے وقار، عزت اور کردار کی نفی ہوگی۔ کہ اُنہی سے تو یہ معزز افراد ابھی ابھی جیت کر آئے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ایسی سبھی سیاسی جماعتوں نے انہیں ٹکٹ دینا بھی گوارا تک نہ کیا تھا۔ ویسے بھی ایسی جماعتوں میں اُنہیں پچھلی نشستوں پر ہی بٹھایا جائیگا۔
اور ان سے ہارنے والے ان سے پارٹی میں افضل ہی قرار پائیں گے۔ اور فوراً انہیں کوئی اعلیٰ عہدہ ناظم و چیئر مین وغیرہ نہیں مل سکے گا۔ اگر وہ اللہ اکبر تحریک میں شامل ہو جائیں۔ تو ہر ضلع میں وہ باوقار طریقہ سے مزیدترقیاں پا سکتے ہیں۔ اور تحصیلی و ضلعی نظامتوں اور چیئر مین تک بھی پہنچ جائینگے انشاء اللہ۔ ڈاکٹر باری نے بتایا کہ وہ53 سال سے اپوزیشن کی سیاست کا ادنیٰ حصہ ہیں ۔ 1972 ء کی بنگلہ دیش نامنظور تحریک کی انہوں نے بطور طالبعلم راہنما قیادت کی اور 1973 ء میںیو ڈی ایف کی سول نافرمانی تحریک میں پہلے روز ہی بطور چیئر مین پاکستان سٹوڈنٹس کونسل قیادت کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنے اور کئی ہفتے لاہور جنرل ہسپتال میں موت اور زندگی کی کشمکش میں بے ہوش پڑے رہے۔26 مئی 1974ء کو نشتر کالج ملتا ن کے طلباء پر ربوہ حال چناب نگر پر قادیانیوں کے حملے پر پریس کانفرنس کے ذریعے ملک بھر میں تحفظ ختم نبوت کی تحریک کے آغاز کا اعزاز بھی انہیں کو حاصل ہے۔
انہی کے لکھے ہوئے پمفلٹ ”آئینہ مرزائیت” کی ہی لاہور ہائی کورٹ کے ڈبل بینچ نے انکوائری کی اور اسکو درست قرار اور سانحہ ربوہ کی بنیاد قرار دیا ۔ اسی پمفلٹ کو مولانا مفتی محمود ، شاہ احمد نورانی و دیگر علماء نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے خلاف بحث کے دوران بطور ثبوت پیش کیا ۔ کہ اس پمفلٹ میں قادیانیوں کے کفریہ عقاید کی مکمل نشاندہی کی گئی تھی۔ ملک بھر میں ختم نبوت کی تحریک نے جنم لیا۔ اور 7 ستمبر 1974 ء کو بذریعہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر قادیانیوں کو قومی اسمبلی نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ 1977ء کے مشہور زمانہ دھاندلیوں والے انتخابات میں ڈاکٹر باری وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف قومی اتحاد کے امیدوار تھے۔ اُنہیں اغواء کرکے 110 دن تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مگر وزیر اعلیٰ پنجاب دوسرے تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور وزیر اعظم بھٹوکی طرح بلا مقابلہ منتخب نہ ہو سکے ۔ میاں باری نے مزید بتایا کہ اللہ اکبر تحریک تو 2013 ء میں رجسٹرڈ بطور سیاسی جماعت ہو گئی تھی۔ مگر اسے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کے طرف سے انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا۔ تاکہ پارٹی ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ پارٹی کو انتخابی نشان 13 مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد 4 جون 2013ء کو ”گائے ”الاٹ کیا گیا۔ اب پارٹی مستقبل کے بلدیاتی و عام انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی۔ اور جغادری سیاستدانوں اور گھسی پٹی سیاست کا خاتمہ کر ڈالے گی۔