کنٹونمنٹ انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے لئے سبق

Municipal Elections

Municipal Elections

تحریر : زاہد محمود
ملک کے طول وعرض میں موجود کنٹونمنٹ کے علاقوں میں 25 اپریل کو عوام نے اپنے نمائندے چننا تھے اور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا تھا۔ ان انتخابات میں عوام نے اپنے نمائندے چنے تاہم ووٹ ڈالنے کا تناسب بہت ہی تھوڑا رہا اب تک کے نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے شمالی اور وسطی پنجاب میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی اور ملک بھر سے 68 نشستیں جیت کر پہلی پوزیشن حاصل کی اور اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو کافی حد تک بحال کیا خاص طور پر راولپنڈی اور لاہور جو کہ پنجاب کی سیاست کا گڑھ سمجھا جاتا ہے پر بلا مبالغہ اپنے سیاسی حریف کو اوندے منہ پچھاڑ دیااور 40 میں سے 34 نشستیں اپنے نام کیں دوسرے نمبر پر آنے والی تحریک انصاف نے ملک بھر میں 42 نشستیں حاصل کیں لیکن اپنے گڑھ راولپنڈی اور لاہور سے نہایت بری طرح سے ہار گئی ان انتخابات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تومثبت پہلو اور منفی پہلو دونوں سامنے آتے ہیں ہم کوشش کرتے ہیں کہ دونوں پہلومدنظر رکھیں اور ان کو بحث کے لئے چھوڑ دیں۔

ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 2 لاکھ روپے کے اخراجات کی حد کا جس طرح مذاق اڑایا گیا وہ الیکشن کمیشن کے اختیارات ، اہلیت اور کارکردگی پر منہ زور طمانچہ ہے۔ جس بے دردی سے بلا خوف و خطر پیسے کا استعمال کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب مقامی سطح کے انتخابات میں بھی کسی امیدوار کا مضبوط سہارا ہونا ضروری ہے ورنہ مدمقابل امیدوار کے اخراجات کا مقابلہ کرنے میں اسے مشکل پیش آئیگی جو کہ آخر میں اسکی ہار پر منتج ہوگی ۔ یہاں ایک بات مزید کہتا چلوں کہ جب کسی شرط پر عمل درآمد نہیں کروایا جا سکتا تو اسے رکھ کر اپنامذاق کیوں اڑایا جاتا ہے ؟ بات صرف اخراجات تک ہی محدود نہیں بلکہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر پیسے کی لالچ نوکریوں کی لالچ گیس اور پانی کے جعلی سروے بھی کرائے جاتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی ایکشن لیا جائے ۔ تاہم ایک بات جسکی تعریف کی جائے کہ ان انتخابات میں کسی نے بھی اپنا ووٹ چوری ہونے یا دھاندلی کی شکایت نہیں کی جس پر بلاشبہ حکومت وقت الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں اور یہ جمہوریت کے لیئے نیک شگون ہے۔

PML N

PML N

اب آتے ہیں جماعتوں کی کارکردگی پر مسلم لیگ ن کی جیت میں اہم کردار راولپنڈی میں چوہدری تنویر کی بہترین حکمت عملی تحریک انصاف کی ضلعی قیادت کی نا اہلی اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم نیز انکے آپس کے اختلافات نے تحریک انصاف کے ووٹر کے ذہن میں کنفیوژن پیدا کی اور وہ باہر ہی نہیں نکلا نیز تحریک انصا ف کی طرف سے جو دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا اس سے انکے ووٹر کے ذہن میں یہ بات بھی بیٹھ گئی کہ کیا فائدہ ہمیں اپنی تعلق دار ی اور محلے داری کے خراب کرنے کا جب تحریک انصاف انکے ووٹ کا تحفظ ہی نہیں کر سکتی تو انھوں نے ووٹ نہ ڈالنے کو ہی بہتر سمجھا حالانکہ اگر تحریک انصاف اپنے ووٹر کو یہ یقین دلاتی کہ اب ہم انکے ووٹ کا تحفظ کریں گے تو یقینا ووٹر کو نکالنے میں کافی بہتری لائی جاسکتی تھی ۔ مسلم لیگ ن کی کامیابی کی دوسری اہم وجہ چین کے صد ر کا دورہ اور اس دورے کے دوران ہونے والے معاہدے ہیں مسلم لیگ ن کی ٹیم نے بڑی کامیابی سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی ہے کہ اگر عمران خا ن کا دھرنا نہ ہوتا تو چینی صد ر کا دورہ پہلے ہو جاتا اور یہ تمام معاہدے ہو جاتے ۔ ایک اور وجہ تحریک انصاف کا قومی اسمبلی کے حلقہ 246 میں انتخاب میں توقع کے مطابق کارکردگی کا نہ دکھانا بھی ہے میری رائے میں عمران خان کا ان لوگوں کو زندہ لاشیں کہنا اور پھر ان ہی ” زندہ لاشوں ” سے ووٹ مانگنا سب سے بڑی وجہ ہے اس حلقے میں توقع کے مطابق کارکردگی نہ دکھانے کی ایم کیو ایم ایک ایسی جماعت جو کہ گلی محلے تک منظم انھوں نے اس موقع کو جانے نہیں دیا اور بہترین کارکردگی دکھائی۔

بات اگر کی جائے پی پی پی پی کی تو نہایت دکھ کی بات ہے کہ ایک ایسی جماعت جسکی جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ کاوشیں ہو آج ہمیں یہاں کھڑی نظر آتی ہے یہ انتخابات ہمیں بہت سا سبق دے کر گئے ہیں سب سے پہلا سبق آزاد امیدواروں کا بہت بڑی تعداد میں جیتنا ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہیں اور آزاد امیدوار اگر محنت کریں تو وہ جیت سکتے ہیں ہماری سیاسی جماعتیں اب یہ فیصلہ کریں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں تمام کے تمام عوامل کو مد نظر رکھیں ورنہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اب آزادانہ طور پر الیکشن لڑنے کا سوچیں گے جو کہ کسی بھی صورت میں سیاسی جماعتوں کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔

دوسرا سبق مسلم لیگ ن کے لئے ہے کہ وہ باقی تمام ملک سے تقریبا ختم ہونے کے قریب ہے اگر راولپنڈی اور لاہور میں تحریک انصاف اپنے ووٹر کو نکالنے میں کامیاب ہوجاتی اور اپنی نااہلی نہ ظاہر کرتی تو بہت بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا انکو اب بھی وقت ہے بہترین فیصلے کریں اور اپنی جماعت کی کارکردگی کو بہتر بنائیں عوام رابطہ مہم کو تیز کریں اپنی جماعت کے اندر جمہوریت کو فروغ دیں اور اہل اور قابل لوگوں کو اوپر لائیں۔

تحریک انصاف کے لیئے یہ انتخابات سب سے بڑا سبق ہیں کہ آپکا ووٹر صرف نعروں پر یقین نہیں رکھتا اسے آپ نے کچھ کر کے دکھانا ہے اپنے اختلافات کو دور کرنا ہے اور پارٹی میں موجود مفاد پرستوں کا صفایا کرنا ہے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ہے تحریک انصاف روایتی اور جوڑ توڑ کی سیاست میں دوسری جماعتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسے اپنے علیحدہ تشخص کو برقرار رکھنا ہوگا ورنہ بہت دیر ہوجائے گی اور ایک ایسی جماعت جس نے متوسط طبقہ اور نوجونوں کو اپنی جانب مبذول کرایا بڑی مشکل سے دوچار ہوجائے گی جیسا کہ آج پی پی پی پی ہے۔

Zahid Mehmood

Zahid Mehmood

تحریر : زاہد محمود