اگر گھسے پٹے ،آزمودہ اور کرپٹ چہروں کو اقتدار کی مسند پر بٹھانا ہے تو پھر نیا پاکستان کیسے بنے گا؟ نئے پاکستان کیلئے نئے چہرے نئی سوچ، نیا پروگرام اور نئی حکمتِ عملی درکا ہے جس کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔تسلسل جماعتیں بدل کر اقتداری بس میں سوار ہونے کا سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے چل رہا ہے جس کا منطقی نتیجہ پاکستان کی تنزلی ہے۔موقع پرست ایک دروازے سے نکل کر دوسرے دروازے سے وزارت کی کرسی پر برا جمان ہو جائیں تو کیا اسے تبدیلی کہا جائیگا ؟ جو ایک وزارت میں نکما ہے وہ دوسری وزارت میں ارسطو کیسے بن جائیگا ؟ لہذا وزارتیں بدلنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ٹیکنو کریٹ کے نام پر جو بساط بچھائی گئی ہے وہ بے اثر ہو گی کیونکہ اس طرح کے تجربات پہلے بھی ناکامی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔حفیظ شیخ نے پی پی پی حکومت میں کون سا تیر مار لیا تھا جو وہ اب مارلیں گے ؟قرضوں کی بھرمار در اصل انہی کے دور میں ہوئی تھی ۔پاکستان میںصحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے والی قیادت کا فقدان ہے۔آٹھ ماہ تک وزیرِ خزانہ کی صلا حیتوں کے گن گانے والے وزیرِ اعظم کو اچانک یو ٹرن لینا پڑ گیا اور اپنے انتہائی معتمد وزیر کو فارغ کرنا پڑ گیا۔ لگتا ہے شب انھیں کوئی انکشاف ہواتھا جس کا شکار اسد عمر بن گے۔ وہی آمرانہ انداز جو طالع آزمائوں کا خاصہ ہوتا ہے۔جسے تبدیلی کا دماغ کہا گیا تھا اسے ہی قربانی کا بکرا بنا لیا گیا۔
کیا اسد عمر اتنا با اختیار تھا کہ وہ سارے فیصلے تنِ تنہا کر رہا تھا؟سارے فیصلوں کا اصل منبہ تو عمران خان کی ذات تھی لیکن وہ خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں۔ در اصل ہمارے ہاں اہم فیصلوں کی ڈوریاں کسی اور جگہ سے ہلائی جا تی ہیں لہذا وزیرِ خزانہ کی بر طرفی ایک نئے بحران پر منتج ہو گی۔حکومت کنفیوژن کا شکار ہے اور اندھیروں میں ٹامک ٹائیوں مار رہی ہے تا کہ مطلوبہ شکار ہاتھ آ جائے لیکن اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ موجودہ قیادت ملکی امور چلانے کی اہل نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان تبدیلی کے حو اہش مند ہیں لیکن اس تبدیلی کو کس طرح روبہ عمل لایا جائے یہ بات ان کے ادراک سے ماوراء ہے۔نعرے بہت ہیں لیکن عمل ندارد۔وہ ابھی تک یہ نہیںسمجھ سکے کہ کس کھلاڑی سے کون سا کام لینا ہے؟وہ بائولر کو بیٹسمنین اور بیٹسمین کو بائولر سمجھ کر ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ ناکامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔عثمان بزدار کی مثال بڑی واضح ہے۔ان میں کون سی ایسی خفیہ صلاحیتیں ہیں جو انھیں پنجاب کا وزیرِ اعلی بنارکھا ہے کسی کی ضد تھی کہ عثمان بزدار کو وزارتِ اعلی سونپی جائے اور ایسا ہو گیا ۔اب دنیا کہہ رہی ہے کہ وہ عقل و شعور سے بالکل کورا ہے لیکن عمران خان کسی کی نہیں سن رہے بلکہ اس بات پر مصر ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی ۔بہر حال ابھی تک تو ہر سو اندھیرا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اندھیرا مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عثمان بزدار میں وزیرِ اعلی والی کوئی خوبی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ عمران خان پی پی پی کو موردِ الزام ٹھہراتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج پی پی پی کے کئی لوٹوں کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا کر فخر ونازکے ڈنکے بجارہے ہیں۔کارکر دگی معیار نہیں ہے بلکہ پسِ پردہ اور بہت کچھ ہے ۔کیا اتحادی جماعتوں کے وزراء کی کارکردگی اعلی معیار کی ہے جو انھیں بخش دیا گیا ہے ؟ایم کیو ایم ،مسلم لیگ (ق) جی ڈی اے،عوامی مسلم لیگ ، باپ،جنوبی پنجاب اتحاد اور آزاد اراکین کے وزراء کی کارکردگی سب کے سامنے ہے لیکن ان کی جانب کسی کو آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں ہے۔اتحادی خود اپنی وزراتوں سے مطمئن نہیں ہیں لیکن انھیں پھر بھی چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی جماعت اپنے وفاداروں کے بغیر اپنے منشور کو عملی جامہ پہنا سکتی ہے ؟ َسیاسی جماعتوں کی پہچان ان کے کارکن ہو تے ہیں جو اپنی جماعت کی مقبولیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں لیکن اگر پرانے اور مخلص کارکنوں کو جماعت سے باہر کر دیا جائے تو جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں ۔جنرل ایوب خان کا زوال ذولفقار علی بھٹو اور امیر محمد خان(نواب آف کالا باغ) کی کابینہ سے علیحدگی کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھاجسے بعد میں بڑا سنبھا لنے کی کوشش کی گئی لیکن سب بے سود کیونکہ عوام طفل تسلیوں پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔اب بھی ویسی ہی کیفیت ہے پی ٹی آئی عوام سے کئے گئے وعدوں کا ایفا نہیں کرسکی اور اس کی ساری ذمہ داری وزیرِ اعظم عمران خان کے کندھوں پر ہے کیونکہ وہی کپتان ہیں۔
خواب انھوں نے دکھائے تھے اوروزراء ان کے ویژن کے مطابق کام میں منہمک تھے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونا وزیرِ خزانہ کی نہیں بلکہ وزیرِ اعظم کی نااہلی کا ثبوت ہے۔وہ بات کو خود طول دے رہے تھے اورمدد کیلئے دوست ممالک کی جانب دیکھ رہے تھے جس سے معیشت مزید تنزلی کا شکار ہو گئی۔ وہ آئی ایف ایم کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کو ترجیح دے رہے تھے لیکن بعد میں کاسہِ گدائی پکڑ کر اسی آئی ایف ایم کے دروازے پر سر نگوں ہو گے ۔ اسد عمر کو کون ہدایات دے رہا تھا کہ آئی ایف ایم سے معاہدہ کو طول دو ۔ساری ہدائیتکاری تو عمران خان کی تھی لیکن بری معاشی صورتِ حال کا ملبہ اسد عمر پر ڈال کر انھیں انتہائی تذلیل آمیز انداز سے وزارتِ خزانہ سے رخصت کر دیا گیا۔سوال معیشت کی خستہ حالی کا نہیں ہے یہ محض بہانہ ہے بلکہ اسد عمر کا اخراج اس اندرونی گروپنگ کی کارستانی ہے جس میں پی ٹی آئی دن بدن ڈوب رہی ہے۔ابھی شاہ محمود قریشی کی باری بھی آنے والی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کابینہ میں ردو بدل کا اختیار وزیرِ اعظم کا آئینی حق ہے لیکن ردو بدل کا کوئی معیار بھی تو ہونا چائیے۔کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا والا مفروضہ اس ساری صورتِ حال پر صادق آتا ہے۔اب تو اسد عمر کے بھی پائوں پکڑے جا رہے ہیں کہ خدا را تم کابینہ میں واپس آجائو کیونکہ تمھارے بغیر محفل بڑی سونی اور اداس لگتی ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں چند مخصوص خاندان ہیں جو ہر حکومت کا حصہ بننے کا فن جانتے ہیں۔ان کی ذاتی دولت اور اثرو رسوخ حکمرانوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور انھیں بے بس کر دیتا ہے ۔یہاں چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری والا معاملہ ہے ۔کچھ بھی ہو جائے ان مخصوص خاندانوں کو اقتدار کی راہداریوں میں رہنا ہے اور جب تک یہ مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہو تا پاکستان کا یہی حشر ہو گا۔ ملکی خزانے کو لوٹنے والے مخصوص خاندان آج پی ٹی آئی کا اثاثہ ہیں اور کل کو جب پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو جائیگی تو یہی خاندان کسی نئی شاخ پر بیٹھے ہوئے ہوں گے۔کسی شاعر نے اس کیفیت کو بڑے اچھوتے انداز میں بیان کیا تھا (ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے ۔ انجامِ گلستاں کیا ہو گا) جب تک پی ٹی آئی کی صفوں کوایسے عناصر سے پاک نہیں کیا جائیگا مطلوبہ نتائج کا حصول نا ممکن ہو گا اور پاکستان یوں ہی غربت کی دلدل میں پھنسا رہیگا۔عمران خان جہانگیر ترین کے سحر سے نکلیں گے تو کوئی ڈھنگ کا کام سر انجام دے سکیں گے۔وہ شخص جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے تحاشہ مال و دولت کا مالک بنا عمران خان اس پر دل و جان سے فدا ہیں۔
جہانگیر ترین کو سپریم کورٹ نے جھوٹا اور کرپٹ ثابت کیا ہوا ہے لیکن عمران خان پھر بھی اس کی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں کیونکہ اس نے پی ٹی آئی پر بے دریغ دولٹ لٹائی تھی ۔جہانگیر ترین کی دولت شفافیت کی علامت جبکہ شریف فیملی،بھٹو فیملی اور زرداری فیملی کی بنائی گئی دولت کرپشن اور لوٹ مار کا شاخسانہ۔عمران خان کے ہاں دو معیار ہیں ایک اپنوں کے لئے اور ایک دوسروں کے لئے۔ یہی دو معیار پاکستان کی ترقی میں سدِ راہ ہیں۔عوام اس دو رخی کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن افسوس پی ٹی آئی اسے مزید گہرا کر کے ناانصافی کو ہوا دے رہی ہے۔کوئی تو ہو جو سب کو ایک ہی میزان میں تولے اور اس کے لئے اپنوں اور غیروں کی کوئی تمیز نہ ہو؟عوام کو عمران خان سے ایسی ہی یک رنگی کی توقع تھی لیکن افسوس عمران خان کے یو ٹرنوں سے عوام کی ساری امیدیں نقش بر آب ثابت ہوئیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندران اقبال