تحریر : راؤ اسامہ یہ ایک ویب سائٹ کا آفس تھا جس کے ساتھ ملحقہ ایک درمیانہ ہال تھا، ہال میں چند کمپیوٹرز پڑے ہوئے تھے، ان چند کمپیوٹرز میں سے بھی صرف دو تین پر لوگ موجود تھے اور کام کر رہے تھے، خٹک صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ لوگ کہتے ہیں پاکستان میں بیروزگاری ہے مگر میں کہتا ہوں کہ لوگوں میں کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، میرے یہ کمپیوٹرز فارغ پڑے ہیں مجھے کام کرنے کے لیے لوگ چاہئیں لیکن لوگوں کو کام ہی نہیں آتا اور جنہیں آتا ہے ان کا کام، کام کہلانے کے لائق ہی نہیں.
عاصم مجھے بتا رہا تھا کہ وہ تین سال سے ایم بی بی ایس میں داخلے کی کوشش کررہا ہے لیکن ہر دفعہ ناکام ہوجاتا ہے، عاصم کے میٹرک میں %92 نمبر تھے اور میں حیران تھا کہ اتنا ذہین طالبعلم ایف ایس سی اور انٹری ٹیسٹ میں کیوں مسلسل ناکام ہورہا ہے، آخر اپنی حیرانی کو چھوڑ کر میں نے اس سے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر بننا ہی نہیں چاہتا وہ انگلش لٹریچر پڑھنا چاہتا ہے اس کا شوق ہے کہ وہ پروفیسر بنے، ناولز لکھے اور لوگوں کو زندگی کے نئے فلسفوں سے آگاہ کرے لیکن اس کی فیملی بھی پاکستان کی دیگر ننانوے فیصد والدین کی طرح ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ان کے بچے کی بقاء صرف ڈاکٹر ، انجینیئر اور بینکر بننے میں ہے.
ان دونوں واقعات کو ایک ساتھ سنانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں کیریئر کے حوالے سے نوجوان کشمکش کا شکار ہیں اور انتہائی بدنصیبی کی بات ہے کہ اپنے شوق کےبارے میں جانتے ہوئے بھی وہ اس بات پہ مجبور نظر آتے ہیں کہ دیگر لوگوں کی طرح ڈاکٹر یا انجینئر بنیں ورنہ معاشرہ انہیں ذلیل کر کے رکھ دے گا ، ایک ریس سی لگی ہوئی ہے جس میں دوڑے چلے جارہے ہیں، بچے کا شوق ہے کہ وہ اردو لٹریچر پڑھے والدین اسے انجینئر بنانے پہ تلے ہیں ، بچہ کہہ رہا ہے کہ میں نے اسلامک سٹڈیز پڑھنی ہیں والدین کہیں گے نہیں تم نے تو ڈاکٹر بننا ہے، بچہ کہہ رہا ہے کہ مجھے وکیل بننا ہے والدین اسے میڈیا سٹڈیز پڑھانے پہ مجبور کررہے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خٹک صاحب کے کمپیوٹرز فارغ پڑے رہتے ہیں، وہ جس نے وکیل بننا تھا وہ زبردستی میڈیا پڑھ کر کام کرنے آیا ہوا ہے ظاہر سی بات ہے کہ وہ کام نہیں کرسکتا. اسی طرح ڈاکٹر، انجینیئرز اور دوسرے لوگوں کی مثالیں ہیں. یہ لوگ اپنی اپنی فیلڈ میں کام تو کررہے ہیں لیکن کام کے ماہر نہیں ہیں، نہ ہی کسی قسم کی کریٹویٹی ان میں ہے بس لگے بندھے انداز میں کام کیے جارہے ہیں اور پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں اسی وجہ سے مجموعی طور پہ ملک میں میڈیکل، انجینیئرنگ، بینکنگ اور اسی طرح کے دوسرے میدانوں میں ترقی نہیں ہو پارہی.
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے کیریئر کونسلنگ کے ادارے قائم کیے جائیں جو طالبعلموں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق درست سمت دکھائیں اور جب طلبہ عملی میدان میں قدم رکھیں تو وہ اپنی فیلڈ کے ماہر ہوں اور اس میں نئی نئی ایجادات کرسکیں، اس کے ساتھ ساتھ طالبعلموں کو مختلف زبانوں خصوصاً عربی زبان کا علم سکھایا جائے تاکہ وہ اپنے طور پر اسلامی علوم سیکھ سکیں اور قرآن و حدیث سے مکمل طور پہ مستفیذ ہوسکیں ، ان اقدامات کے بعد کوئی وجہ نہیں بچتی کہ پاکستان صحیح ترقیاتی اسلامی و فلاحی ریاست نہ بن سکے.