تحریر: ڈاکٹر احسان باری پاکستان بننے کے تھوڑا ہی عرصہ بعد انگریزوں کے نوازے ہوئے جاگیرداروں، وڈیروں نے حکومتی مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا تھااور تمام قربانیاں دینے والے کارکنوں کو “پھرتے ہیں میر خوارکوئی پوچھتا نہیں” کی طرح کوئی گھاس بھی نہیںڈالتا تھا ۔مخدوم زادے ،ٹوانے،گیلانی اور بالخصوص پنجاب میں دولتانے عباسی قریشی گورمانی چھائے رہے ایوبی آمریت ہی میں بھٹو تالپور و دیگر وڈیرے مقتدر مسلم لیگ و دیگر سیاسی جماعتوں پر قابض ہو چکے تھے۔ایوب کو ڈیڈی کہنے والے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے استعفیٰ دے کر انقلابی سوچوں کو پروان چڑھایا۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید کی کسان کمیٹیاں بھٹو کی نئی جماعت پی پی پی میں ضم ہو گئیں۔ دیگر سوشلسٹ گروپوں معراج محمد خان ،حنیف رامے ،مختار رانا جیسے انقلابیوں نے پارٹی کے تنظیمی امور سنبھال لیے۔
قادیانیوں کے ہیڈ کوارٹر ربوہ کے دورے کے بعد انہوں نے بھی ہر قسم کی مالی امداد اور تنظیمی امور کے لیے افرادی قوت کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی۔ 70 کے انتخابا ت میں جو جاگیردار وڈیرے کونسل کنونشن اور قیوم لیگ کو چمٹے رہے وہ ناکام رہے اور جنھوں نے بھٹو کا دامن تھام لیا وہ وڈیرے کامیاب ٹھہرے۔حتیٰ کہ قیوم خان کا 37 میل لمبا جلوس بھی کام نہ آیا۔دینی جماعتیں متحد نہ ہو سکیںمفتی محمود شاہ احمد نورانی اور جماعت اسلامی نے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے کیے اس طرح سے نام نہاد سوشلسٹ سوچ رکھنے والا سندھ کا بہت بڑا جاگیردار صرف 29 فیصد ووٹ حاصل کرکے مغربی پاکستان میں میدان مار گیا۔اور دائیں بازو کی تمام جماعتیں بشمول دینی جماعتوں کے بری طرح پٹ گئیں۔ مشرقی پاکستان میں تو مجیب الرحمٰن نے بھارت کی مکمل مالی امداد اور مسلح مکتی باہنی کے ذریعے کسی مخالف کو جلسے ہی نہ کرنے دیے حتیٰ کہ مولانا مودودی کا پلٹن میدان ڈھاکہ میں جلسہ پلٹادیا اور شدید قتل و غارت گری بھی کی گئی۔
اس طرح وہ دو سیٹوں کے علاوہ تمام قومی ا سمبلی کی نشستوں پر قابض ہو گیا اسے متحدہ پاکستان کا وزیر اعظم بننا تھا مگر بھٹو نے اعلان کردیاکہ جو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ ڈالی جائیں گی۔اس طرح قومی اسمبلی کے اجلاس کاا نعقاد ہی نہ ہوسکا۔اجلاس ملتوی ہوتے ہی مجیب نے علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کردی بھارتی افواج اس کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان میںداخل ہو گئیںچونکہ برسراقتدار جنرل یحییٰ ہر صورت بطور صدر برقرار رہنا چاہتا تھا اس لیے وہ خود شکار کھیلنے کے بہانے لاڑکانہ گیا اور بھٹو سے اقتدار کے فارمولہ پر معاہدہ کرلیاپھر اس پر عمل در آمد کے لیے خصوصی مشن پر بھجوائے گئے مسٹر بھٹو نے سلامتی کونسل میں پیش کردہ پولینڈ کی جنگ بندی کی قرارداد ہی پھاڑ ڈالی اور اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔تیسرے ہی روز یحییٰ خان نے مشرقی پاکستانی کمان کے جنرل اے اے نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا حکم بھیج دیا 93 ہزار مسلح مسلمان فورس بھارتیوں کے آگے سر نگوں ہو گئی۔واپس جاتے ہوئے بھارتی فوجی ہماری اٹھائیس ہزار چیختی چلاتی بہو بیٹیوں بہنوں کو بھی اپنا رو سیاہ کرنے کے لیے ساتھ گھسیٹتے لے گئے۔
اس پر بھی ہماری غیرت قطعاً نہ جاگی ! بھٹو کا نعرہ ادھر تم ادھر ہم اور دونوں راہنما ئوں کی اقتدار کی خواہش پوری ہو گئی۔دنیائے اسلام کی عظیم منظم فوج کے ہتھیار ڈالنے اور ملک کے دو لخت ہو جانے کے اعلان پر محب وطن لوگوں کے دل خون کے آنسو رونے لگے مگر پی پی اور عوامی لیگ والے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے بلکہ کئی جگہوں پر محفلوں میں ڈانس کے ذریعے خوشیاں منائیں گئیں کہ اب مشرقی پاکستان میں مجیب اور مغربی پاکستان میں پی پی کی حکومت کو قائم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھٹو سوشلزم تو کیا نافذ کرتا اس نے بچے کھچے جاگیرداروں کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کردیا اور وہ جن سوشلسٹوں کے ذریعے اقتدار میں آیا تھا وہ کھڈے لائن لگنا شروع ہوگئے۔
PPP
1977 تک سندھ میں تالپور اور ممتاز بھٹو پنجاب میں عباسی اور صادق قریشی گورنر اور وزیراعلیٰ بن چکے تھے مارچ 1977میں قومی اسمبلی میں انتخابی دھاندلیوں کی وجہ سے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ ہوا۔اگر مسٹر بھٹو ایسا نہ کرتے تو آسانی سے اکثریتی نشستیں جیت سکتے تھے مگر الطاف حسین کی طرح انہوں نے خود ہی سر اوکھلی میں دے ڈالا تھا۔اس دوران جو صنعتیں قومیائی گئیں تھیں وہ صنعتکار بیورو کریسی اور دیگر افسران پی پی کے راہنمائوں حتیٰ کہ کارکنوں کی طرف سے دھونس سے ناجائز کام کروانے کے وطیرہ سے تنگ آئے ہوئے تھے اور بھٹو سے جان چھڑوانا چاہتے تھے ملک میں بھٹو مخالف قومی اتحاد کی طرف سے نظام مصطفیٰ کی تحریک چل رہی تھی اور دونوں کے وفود کے درمیان معاہدہ ہو جانے کے باجود جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کر لیا۔ اور اسلامی نظام کے ہی نعرے کے تحت گیارہ سال مقتدر رہا۔
بہاولپور کے نزدیک طیارے کے حادثے میں بمعہ قیمتی جنرلو ں کے اگلی دنیا کو سدھار گیا۔نواز شریف ضیاء الحقی دور کے دوران مل واپس ملتے ہی خود سیاست میں چھلانگ لگا چکا تھا ۔اور بیورو کریسی اور جنرلوں کی تابعداریوں سے وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب بن گیا وہ اب بھی تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ انجوائے کر رہے ہیں اس لیے ان کی دیکھا دیکھی دیگر تمام صنعتکاروں نے طے کیا کہ اگر پیسوں سے ہی ممبران سمبلی بنا جاسکتا ہے تو پھروہ پیچھے کیوں رہیں انہوں نے سیاست کو خالص سرمایہ کا کھیل بناڈالا ہے وگرنہ تو ایم حمزہ جیسے ممبر اسمبلی سائیکلوں پر اسمبلی ہائوس جایا کرتے تھے اب تو سیاسی ورکر بھی پیسے مانگتا ہے اور ووٹر بھی اپنی مناسب قیمت لگواتا ہے۔بغیر کسی لالچ یا سرمایہ کے ووت لینا اور دینا محال ہو گیا ہے۔اب صنعتکاروں کے لیے سیاسی کھیل کھیلنا بہت آسان ہو گیا ہے انتخابات میں کروڑوں لگائو اور پھر اربوں کمائو جو زیاد مال لگاتا ہے وہی کامیاب ٹھہرتا ہے لاکھ کوششیں کریں جاگیردار وڈیرے اور سود خور صنعتکار ہی کامیاب ہوتے رہیں گے پارٹیوں کا نام تبدیل ہوسکتا ہے۔
Imran Khan
جیسے آجکل حزب اختلاف کے فرینڈلی ہو جانے اور اس کی دو نمبریوں کی وجہ سے عمرانی کشش تمام نو دولتیے سود خور سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے عمران خان نے بھی اگر سیاسی مار کھائی ہوتی تو یوں کشمیر کے معاملہ پر بائیکاٹ کرکے اپنی مقبولیت پر خود کش حملہ نہ کرڈالتااب تک تینوں بڑی پارٹیوں ن لیگ ،پی پی اورتحریک انصاف کے 95 فیصد عہدوں پر یہی طبقہ قابض ہو چکا ہے اب پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑوںاور ٹوٹی جوتیوں والے غریب کارکنوں کو اصل دفاتر جاتی امرائی ،زرداری بلاول ہائوسز اور بنی گالائی محلات میں کو ن گھسنے دے گا۔اب ایک بھائی ادھر ہے تو دوسرا بھائی یا کزن دوسری طرف خواہ کوئی جیتے ہارے اقتدارانہی عیاش وڈیروں اور صنعتکاروں کے چنگل سے نہ نکل پائے گا۔
بھٹو نے انہی وڈیروں پر کارکنوں کو چھوڑ کر تکیہ کیا تھا اور تختہ دار پر جھول گئے خدا نخواستہ انہی وڈیروں نے یہی حشر عمران خان کا کرڈالا تو ملک ایک نئے جری لیڈر سے محروم ہو جائے گا۔اب امکان غالب یہی ہے کہ مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کے بھوک مرتے ،خود کشیوں پر مجبور مزدور ہاری محنت کش کسان گلی کو چوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے اور محمدعربی ۖپر درود پڑھتے تحریک کی صورت میں بپھرے ہوئے باہر نکلیں گے اور صحیح العقیدہ فرقہ پرستی اور برادری ازم سے عاری افراد کو کامیاب بناڈالیںگے اور ملک صحیح منعوں میں فلاحی مملکت بن جائے گا۔