دھرتی کا عظیم فرزند۔۔۔شہید کیپٹن اِسفند

Captain Asfand

Captain Asfand

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

چند روز قبل ایک نہایت خوبصورت اور نایاب تحفہ ”معرکہ بڈھ بیر کا ہیرو” ملا۔ پہلی نظر جو سرورق پر جگمگاتے ہوئے ایک روشن، زندہ و تابندہ، مسکراتے ہوئے گل ِ پُر بہار چہرے پر پڑی، جس کی مسکراتی آنکھوں میں حیاتِ ابدی کے چراغ روشن تھے۔ بے اختیار منہ سے “سبحان اللہ” نکلا اور صدف چشم سے گوہر ہائے عقیدت نے چھلک کر اسکی پیشانی چوم لی۔ کتاب ہاتھ کیا لگی ساری رات اسے پڑھنے میں ایسے مگن ہوئی کہ نمازِ فجر تک اسے ختم کر ڈالا مگر سارا دن کچھ کمی سی محسوس ہوتی رہی۔ اگلے دو دن اسے جرعہ جرعہ نوش جان کیا لیکن تشِنگی اور بڑھ گئی ۔ میں نے جسے آب جُو سمجھا تھا ،وہ تو محبت کا دریا تھا سو اس میں اُتر گئی اور ابھی تک باہر آنے سے قاصر ہوں۔

بہت سے مصنفین کے ادب پارے نظر سے گزرے، شجاعت اور دلیری، تہوّرو بہادری اور عظمتِ کردار کے بہت سے شاندار فن پارے پڑھنے کو ملے۔ عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ متعلمین نے اپنے معلمین کی خدمت میں ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے ۔شاگرد اپنے اساتذہ کے اخلاص اور ان کے حسن کارکردگی کے مداح نظر آتے ہیں۔ مگر یہاں کچھ عجیب سا معاملہ ہے۔ ایک معلم اپنے زندہ جاوید شاگرد کی تعریف میں خامہ فرسا ہے۔ میرا پروفیسر جناب محمد ظہیر قندیل سے یہ پہلا غائبانہ تعارف ہے۔ قندیل صاحب نے یادوں کی وہ قندیل روشن کی ہے کہ وقت کی تند و تیز ہوائیں اسے بجھانے میں ناکام رہیں گی۔ ان کے اسلوب کی سادگی، سلاست، روانی، پیکر تراشی، تجیسم نگاری، نفسیاتی حقیقت آرائی قاری کی انگلی تھام کر اسفند یار کی زندگی کا ہر لمحہ سانس لیتا محسوس ہوتا ہے۔ کسی دریچے سے وہ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں بڑی شان سے داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی کسی گوشے میں مطالعے میں محوِ نظر آتا ہے۔ کبھی وہ ہاکی کے میدان میں جوہر دکھا رہا ہے اور کبھی موٹر سائیکل اڑائے لئے جا رہا ہے۔ وہ شدید زلزلے میں کمرے چھان رہا ہے کہ کوئی بچہ تو اندرتو نہیں رہ گیا اور کبھی جناح ونگ کے شیڈ پر تصویریں بنوا رہا ہے۔ اسفند یار کی زندگی کی اس قدر خوبصورت اور مکمل تصویر کشی اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کی تحریر وہ آئینہ ہے جس میں اسفند یار بخاری اقبال کا وہ مرد مومن ہے ،جو پر اسرار بھی ہے کردار کا غازی بھی، جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا دونیم ہیں اور بہت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بن جاتے ہیں، پوری آن بان سے جلوہ گر نظر آتا ہے وہ اس شعر کی مجسم تصویر ہے۔

ہو حلقۂِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

خاندانِ سادات کا چشم و چراغ، بے داغ کردار کا مالک، بڑوں کا احترام کرنے والا، چھوٹوں پر شفقت کی نگاہ رکھنے والا، دوستوں کا دلدار، والدین کی آنکھ کا تارا، بھائیوں کے دل کی ٹھنڈک ۔ہمہ صفت موصوف اسفند یار جس نے اپنی حیات مستعار پر ایسے نقش ثبت کر دیئے کہ اُسے لازوال بنا دیا۔ مجھے کئی بار ایسے لگا کہ میں اپنی آنکھوں سے اسفند یار کو دیکھ رہی ہوں ،محسوس کر رہی ہوں ۔ اسکی خوبصورت یادوں نے میرے دل کو رنگا رنگ جذبات سے بھر دیا۔ یقینا پروفیسر صاحب کو اپنے جذبات قلمبند کرنے میں کئی بار انگلیاں فگار کرنا پڑی ہوں گی، قلم کو اشکوں میں ڈبونا پڑا ہو گا، جذبات کے پُر جوش ریلوں پر بند باندھنا پڑے ہوں گے ۔یہ کتاب واقعی شہید کی یادوں کا انمول خزینہ ہے۔یوں تو پاک فوج کا ہر جوان، ہر سپاہی، ہر مجاہد دُرِّ نایاب ہے مگر ان میں بعض جواہر پارے ایسے ہوتے ہیں جن کو ربِ کریم خاص عنایت سے اعلیٰ ترین مقام پر فائز کرنے کے لئے چن لیتا ہے۔

اسفند یار مادرِ وطن کی پیشانی کا جھومر ہے ۔یہ وہ پھول ہے جس کی مہک دھرتی ماں کے مشامِ جان کو ہمیشہ معطر رکھے گی ۔اس کا لہو نبض سیتی کو تپش آمادہ رکھنے کے کام آیا ہے اور اس کا قلبِ سیلم ارضِ پاک کے سینے میں دھڑک رہا ہے۔ اسفند یار اور اس جیسے شہید ہی ہماری ہستی کا سبب ہیں ۔ہر صبح آفتاب ان شہیدوں کو سلام پیش کرتا ہے ۔ہر شام افق ان کے لہو کا غازہ مل کر پُر امن راتوں اور حسین خوابوں کا تحفہ لاتی ہے۔ سلام ہے اس پدرعظیم پر جس نے اپنے خواب قربان کر دیئے، سلام ہے اس مادر مہربان پر جس نے اپنی آنکھوں کی روشنی وطن کے گُل رنگ اور پُر نور سویرے پر قربان کر دی۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ شہیدوں کے نور نے ہی ہمارے یقین کے ہاتھوں میں شمع فروزاں تھمائی ہے۔ بے شک۔

شہیدوں کا لہو وہ نور ہے جس کی تجلی سے
یقین افراد کے، قوموں کے مستقبل سنورتے ہیں
اسی کی تابشوں سے آسمانِ فکرو دانش پر
نئی صبحیں نکلتی ہیں، نئے سورج ابھرتے ہیں

”معرکہ بڈھ کا ہیرو” پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ابھی ہماری قوم کی رگوں میں دوڑنے والا لہو سرد نہیں ہوا ۔ہماری خاکستر میں ابھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں، جو دشمن کے خرمن حیات کو پھونک سکتی ہیں، ابھی ہمارے اندر آتش سوزاں موجود ہے جو ہر اندرونی و بیرونی وطن دشمن قوت کے شجر حیات پر برق بن کر گر سکتی ہے۔ اسفند یار وہ شمشیر براں ہے جو بھیڑیوں کے غول پر اس طرح گرا کہ ان کو جہنم واصل کر دیا۔ اسفند یار دہشت گردوں کے مکروہ چہرے پر ایسا طمانچہ ہے ،جسے وہ ہمیشہ یاد رکھیںگے ۔ وہ وطن دشمن عناصر کے لئے ایک سبق ہے کہ جب کوئی میلی آنکھ سے وطن کی طرف دیکھے گا تو اسکی آنکھوں سے زندگی کی روشنی چھین لی جائے گی ۔اسفند یار نے وہ کام کیا کیا ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

ہم ایسے کتنے ہی شہیدوں کے مقروض ہیں جن کی قربانی نے ہماری خوشیوں کو محفوظ کر رکھا ہے۔ میرا سلام ہے شہید اسفند یار پر جس نے جام شہادت نوش کر کے بہت سے گھروں کو آباد کر دیا۔

قابل صد احترام ہے وہ ماں جس نے اپنی آغوش کا مہکتا دمکتا پھول نثار کر کے بہت ساری مائوں کی گودیں اجڑنے سے بچالیں۔ سلام ڈاکٹر فیاض بخاری صاحب پر کہ اپنے لاڈلے کو صبر جمیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔ شہید کے والدین ہونے کا جو اعزاز ان کے حصے میں آیا ہے وہ بہت عظیم ہے۔ بے شک وہ دردوکرب کے بحر بے کراں سے گزرے ہیں اور گزر رہے ہیں مگر ان کا صبر قابل ستائش بھی ہے اور قابل ِ فخر بھی۔

شہید اسفند یار معرکہ بڈھ بیر کا ہی نہیں پاکستان کے ہر گوشے کا اور ہر پاکستانی کا ہیرو ہے۔ وہ نوجوانوں کے لئے ایک روشن مثال ہے، اس کا کردار وہ شمع ہے جو راہِ حق کے پروانوں کو ہمیشہ راستہ دکھائے گی۔

شہید کی والدہ محترمہ کے جذبات نے بارہا میری آنکھوں کو نم ناک کیا اور مجھے بار بار ان پر رشک بھی آیا۔ مجھے تو اسفند یار کے اساتذہ کرام پر بھی رشک آرہا ہے کہ اس ہیرے کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے تراش کر عروسہ حیات کی پیشانی پر سجا دیا۔ مجھے رشک آرہا ہے جناب پروفیسر ظہیر صاحب پر جنہوں نے یادوں کی قندیل روشن کر کے ہمارے دماغوں کو منور کر دیا۔

اسفند یار نے نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ زندہ اس طرح رہنا چاہیئے کہ جب تک زندہ رہے روشن مثال بن کر اور جب طائر روح پرواز کرے تو ملائکہ اس کے استقبال کوقطار اندر قطار کھڑے ہوں۔ اسفند یار کو زندگی سلام کرتی ہے کہ اس نے حیات ابدی کا درس نہ صرف خود پڑھا بلکہ پوری قوم کو یہ سبق سکھا گیا۔

میری دعا ہے کہ اے پیارے شہید بیٹے!

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Dr. Shujah Akhtar Awan

Dr. Shujah Akhtar Awan

تحریر : ڈاکٹر شجاع اختر اعوان

0312-2878330