تحریر : پروفیسر رفعت مظہر قصوری سونامیوں نے تاریخ دہراتے ہوئے ایک دفعہ پھر کپتان کے خطاب کے بعد خوب ہلا گلا کیا ، خواتین سے بدتمیزی اور چھیڑ خوانی کی اور حسبِ سابق کرسیاں بھی اٹھا کر لے گئے ۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اِس بار بھی کرسیاں خورشید محمود قصوری نے خریدی تھیں یا کسی اور کو یہ نقصان اُٹھانا پڑا ۔ خیر اِس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ سونامیوں کے پاس پیسہ بہت ہے ۔ یہ بھی طے ہو گیا کہ قصوریوں کو ”کرسی” سے پیار بہت ہے۔ اسی لیے وہ آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ ، کُرسیاں اٹھا کر ”دُڑکی” لگا دیتے ہیں ۔اِس جلسے میں کپتان نے اپنے خطاب میں ایک ایسی بات کہی جسے سُن کر لوگ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو گئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم اپنے ”موٹو گینگ” کو آگے کرنے کی بجائے مجھ سے براہِ راست بات کریں ۔ وہ بھی پارلیمنٹ میں آئیں ، میں بھی آ جاتا ہوں ، پھر پتہ چل جائے گا کہ کون جمہوریت پسند ہے ۔کپتان کے اِس بیان پر دو ہی باتیں سوچی جا سکتی ہیں ، پہلی یہ کہ نون لیگی وزراء کی یلغار سے وہ بَدحواس ہو گئے ہیں کیونکہ اب نون لیگیئے بھی ”کھُل ڈُل” کے غیرپارلیمانی زبان استعمال کرنے لگے ہیں ۔ کپتان صاحب ایک بات کرتے ہیں تو نون لیگیئے چار۔
دوسری بات یہ کہ کپتان سپریم کورٹ سے مایوس ہو کر اپنا ٹریک بدل رہے ہیں کیونکہ اگر فیصلہ پارلیمنٹ ہی میں ہونا تھا تو پھر اسلام آباد کو ”لاک ڈاؤن” کرنے کی سعی کیوں کی گئی؟ ۔ تحریکِ انصاف نے تو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اِس بار وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خاں کا موڈ کچھ اور تھا جس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کپتان صاحب تو بنی گالہ میں ہی ”پُش اَپس” لگاتے رہے اور اُن کو بنی گالہ سے رہائی دلوانے کے دعویدار وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو چودھری نثار علی خاں نے اسلام آباد کے قریب بھی پھٹکنے نہ دیا جس پروہ بھی بے نیل و مرام واپس خیبرپختونخوا چلے گئے ۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا ، جس نے 2 نومبر سے پہلے ہی پاناما کیس سُننے کا عندیہ دے دیا اور کپتان بُری ہزیمت سے بال بال بچ گئے۔دوسری طرف مخدوش حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سونامیے بھی محتاط ہو گئے ۔ وہ میوزیکل کنسرٹ میں تو بڑے ذوق و شوق سے آتے ہیں لیکن وزیرِداخلہ کے ”پھینٹی پروگرام” کو دیکھتے ہوئے اُنہوں نے گھروں میں بیٹھ رہنے میں ہی عافیت جانی۔
سپریم کورٹ میں کپتان اور اُن کے ساتھی متواتر آتے رہے اور جسٹس صاحبان کی ناپسندیدگی کے باوجود سپریم کورٹ کے باہر نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کی عدالت سجتی رہی ۔ دَورانِ سماعت سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان متواتر یہ گِلہ کرتے رہے کہ فیصلہ تو ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنا پر ہونا ہے لیکن فریقین میں سے کسی نے بھی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے اِس لیے فیصلہ کِس بنیاد پر کریں۔ جج صاحبان نے نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کے وکلاء سے تابڑ توڑ سوالات کیے لیکن کسی بھی لمحے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ فیصلہ کیا آ سکتا ہے البتہ سپریم کورٹ کے باہر لگی عدالت میں دونوں جماعتیں یہی دعویٰ کرتی نظر آئیں کہ فیصلہ اُنہی کے حق میں” آوے ای آوے”۔
Supreme Court
پیر 24 جنوری کو پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایک دفعہ پھر کہا کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ جھوٹ ثابت کرنے کے لیے سچ کو سامنے لایا جائے ، سڑکوں پر جو ہونا تھا ، ہو چکا ، اب فیصلے کا انتظار کریں۔ پانچ رُکنی بنچ کے سربراہ جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فریقین سے کہاکہ وہ گلیوں ، بازاروں میں تبصرآرائی سے گریز کریں اور عدلیہ کو معاملہ چلانے دیں ۔لیکن جسٹس صاحب کی حکم نما ہدایت پر کسی نے کان نہیں دھرا کیونکہ عدالتی کارروائی کے بعد سپریم کورٹ کے باہر ایک دفعہ پھر وہی محفل سجی جسے دیکھ دیکھ کر قوم ”اوازار” ہو چکی ہے ۔ وہی پرانی گھِِسی پِٹی باتیں اور وہی دعوے ، وہی منڈلی اور وہی تماشہ۔ تحریکِ انصاف کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے ایک وکیل ، جو تحریکِ انصاف کے ترجمان بھی ہیں ، اُنہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو سپریم کورٹ کی کارروائی سے آگاہ کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے ۔ اگر عدالت تبصرہ آرائی سے روکنا چاہتی ہے تو پوری کارروائی کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کرنے کی اجازت دے ۔ گویا وکیل صاحب نے اُلٹا اعلیٰ عدلیہ کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ وہ عدالت کی ہدایت پر عمل درآمد سے قاصر ہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی کہ اگر روکنا ہے تو وکیل موصوف کی ہدایت پر عمل کیا جائے ۔ ایک عامی کی زبان سے تو ایسے الفاظ شاید قابلِ برداشت ہوں لیکن ایک وکیل کی زبان سے نکلنے والے الفاظ نہ صرف اُس کی قابلیت بلکہ ضِد اور ہَٹ دھرمی کو بھی ظاہر کرتے ہیں ۔ بہتر ہوتا کہ محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ براہِ راست حکم جاری فرماتے اور پھر حکم عدولی کی صورت میں توہینِ عدالت لاگو کرتے تاکہ عدلیہ کے تقدس پر کوئی آنچ نہ آتی ۔ محترم جسٹس صاحبان یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے”۔
کپتان نے اب وزیرِاعظم کو پارلیمنٹ میں آ کر ”دو ، دو ہاتھ کرنے” کی دعوت دی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ آنے کی توقع نہیں کر رہے کیونکہ جب سپریم کورٹ نے پاناما کیس سُننے کا عندیہ دیا تھا ، تب تو وہ خوشی سے بغلیں بجا رہے تھے اور ہر روز عبادت سمجھ کر سپریم کورٹ میں حاضر ہوتے رہے ۔ البتہ جوں جوں عدالتی کارروائی آگے بڑھتی رہی ، وہ مایوس ہوتے گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کی جس پارلیمنٹ کا اُنہوں نے کبھی مُنہ تک نہیں دیکھا ، اب وہاں آنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے اُنہوں نے پانچ سات مرتبہ ہی پارلیمنٹ کو رونق بخشی ہو گی البتہ 2013ء سے اب تک کی تنخواہیں وہ بڑے اہتمام سے وصول کرتے رہتے ہیں ۔ یہ الزام تو خیر وزیرِ اعظم صاحب پر بھی دھرا جا سکتا ہے لیکن اُن کے پاس سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ امورِ سلطنت انجام دینے اور غیر ملکی دَوروں کے بعد جتنا وقت باقی بچتا ہے اُس میں وہ پارلیمنٹ میں ضرور رونق افروز ہوتے ہیں۔
کپتان جس پارلیمنٹ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ، اُسی کو وہ چوروں ، ڈاکوؤں اور بے ایمانوں کی آماجگاہ قرار دے چکے ہیں ۔ اُسی پارلیمنٹ سے وہ اور اُن کی پوری جماعت کے اراکینِ اسمبلی ایک دفعہ مستعفی بھی ہو چکے ہیں اور یہ وہی پارلیمنٹ ہے جس کے سپیکر کو وہ اب بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔ پھر اُس پارلیمنٹ میں آ کر فیصلہ کرنے کی باتیں اگر ایک بہت بڑا ”یو ٹرن” نہیں تو کیا ہے؟ ۔ اگر فیصلہ پارلیمنٹ میں ہی کرنا تھا تو پھر سڑکوں پر آنے اور سپریم کورٹ میں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ اب کپتان فیصلے کا انتظار کریں کیونکہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں ہو تو پھر پارلیمان اُس کے فیصلے کا ہی انتظار کیا کرتی ہے۔