تحریر : ایمان ملک الحمداللہ! پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار کامیابیاں سمیٹتا ہوا آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ حالات میں دن بدن بہتری آرہی ہے۔ جہاں 2009ء میں کوئی اس جنگ(دہشت گردی کے خلاف جنگ) کو اپنی جنگ سمجھنے کو تیار نہیں تھا آج اُسی جنگ میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کو قوم کی جانب سے سر آنکھوں پر بیٹھایا جا رہا ہے۔ اور چند گھنٹوں میں اُن کے نام ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن جاتے ہیں۔ 2009ء سے 2011ء تک کے عرصے کے دوران، اس ہولناک جنگ میں شہید ہونے والے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان افسروں اور سپاہیوں کی لاتعداد قربانیوں اور خدمات کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا کہ جن کی بدولت آج جنگ کے آخری مرحلے میں مادرِ وطن پر جانیں نچھاور کرنے والوں کو اپنی قوم سے وہ محبت اور پذیرائی مل رہی ہے، جن پر اس جنگ کے اوائل میں شہید ہونے والے کم سن افسروں اور جوانوں کا بھی حق تھا۔ مگر بد قسمتی سے وہ حق انہیں اس وقت ملک میں رائج انسدادِ دہشت گردی کے اس ابہام انگیز بیانیے کی وجہ سے نہیں مل سکا جس نے ایک طویل عرصے تک ملک و قوم میں تقسیم کا ماحول برپا کئے رکھا۔ میری آج کی کہانی بھی سوات آپریشن میں شہید ہونے والے ایک ایسے ہی نوجوان افسر کی ہے جس کا نام شاید ہی آپ نے الیکڑانک اور سوشل میڈیا پر پہلے کبھی سنا ہو۔
وادی سوات کی تاریخی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جسے برطانیہ کی ملکہ الزبت دوئم نے (1960ء میں) اپنے سوات کے دورے کے دوران ‘ مشرق کے سویٹزرلینڈ’ کے خطاب سے نوازا تھا۔ جہاں قدرتی حسن اس وادی کی وجہ شہرت ہے وہیں 2009ء میں دہشت گردی سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے بھی اس کا دنیا بھر میں شہرہ رہا۔ شرپسندوں نے وادی سوات کے حسن کو تو خون کی ہولی کھیل کر مسخ کیا ہی مگر وادی سوات سے نکلنے والے قیمتی پتھر زمرد/ایمرلڈ جو اپنے شفاف گہرے سبز رنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں غیر معمولی طور پر شہرت کا حامل ہے، کو بھی نہ بخشا۔ اوراس کی کانوں (مینگورہ، شموزئی اور گوجر گڑھی/ شانگلہ) پر بھی قابض ہو گئے جہاں سے پاکستان ہرماہ سات ہزار قیراط زمرد نکال کر قیمتی زرمبادلہ کماتا تھا۔
سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق تب اس شہری جنگ میں 5000طالبان کو شکست دینے کے لئےپاک فوج کے تقریباً1500 اہلکار وادی سوات میں موجود تھے۔ اور طالبان کو گھنے جنگلات اور پہاڑی علاقوں سے سوات کے جنوب کی جانب دھکیلنا ان کی بنیادی حکمت عملی میں شامل تھا تاکہ وہاں اِن کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکے۔ اور یوں آپریشن راہِ راست کےتقریباً ایک ماہ (5 مئی سے 15 جون) کے دوران ہی پاک فوج نےایک ہزار چالیس شر پسندوں کوجہنم واصل کیا جبکہ اس کے ایک سوچھ سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔
جب سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے پاک فوج کے تربیت یافتہ چھاتہ بردار سپاہیوں کو طالبان کے زیرِ تسلط علاقوں میں اتارا گیا تو وادی سوات میں موجود زمرد/ایمرلڈ کی تمام کانوں کو پاک فوج کے چھاتہ بردار دستوں نے ترجیح بنیادوں پر کلئیر کروایا۔ مگر تب بھی طالبان مینگورہ شہر اور اس سے متصل تزویراتی اہمیت کے حامل پہاڑوں پر قابض تھے جہاں سے وہ پورے مینگورہ شہر پر نظر رکھ سکتے تھے۔ پاکستان نیوی کے سیلز نے بھی اس جنگ میں پاک فوج کی معاونت کی غرض سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انہوں نے ضلع شانگلہ کے’ بنائی بابا’ کے مخفی تربیتی کیمپ( جوضلع سوات کے مشرق کی جانب واقع تھا) پر بھر پور حملہ کیا جس میں تقریباً ایک سو پچاس طالبان کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
اسی دوران ملٹری نے طالبان کے مرکزی بیس کیمپ پیو چاروادی کو بھی گھیرے میں لے لیا۔ اور اسپیشل سروس گروپ( ایس ایس جی) کے چھاتہ بردار کمانڈوز کو بذریعہ ہیلی کاپٹر پیوچار وادی میں اتارا گیا تاکہ وہ ‘سرچ اور ڈسٹروئے آپریشن’ سر انجام دے سکیں۔
17 مئی2009ء کو پاک فوج نے مینگورہ کی جانب طالبان کے تعاقب میں پیش قدمی شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی پاک فوج نے مینگورہ کا رُخ کیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طالبان پاک فوج کے چھاتہ بردار دستوں کے ساتھ ایک ‘خونریز شہری جنگ’ کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ غرض یہ کہ طالبان نے پاک فوج کے ان اہلکاروں کو مینگورہ میں سخت مزاحمت دینے کے لئے اپنا ہر حربہ بروئے کار لایا، خندقیں کھودیں، بارودی سرنگیں بچھائیں، حتیٰ کہ رُوف ٹاپس(اونچی عمارتوں کی چھتوں) پر مورچہ بند ہو گئے۔اور یوں یہ لڑائی کانجو ،کبل اور مٹہ کی گلیوں، گھروں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں تک پہنچ گئی۔ ضلع سوات کی تحصیل کبل جو کہ سوات سے سولہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اورا س سے متصل کانجو کا علاقہ خطرناک پہاڑوں اور ڈھلوانوں سے بھرپور نہایت دشوار گزار علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کو طالبان کے شر سے پاک کرنے کے لئے پاک فوج کی ایک مایہ ناز یونٹ 72 پنجاب سے تعلق رکھنے والے کیپٹن فیاض احمد شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
میڈیکل کالج چھوڑ کر پاک فوج میں 111 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ کمیشن لینے والے اس نوجوان کو ضلع رحیم یار خان کے ایک پسماندہ گاؤں کے واحد فوجی افسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کیپٹن فیاض بچپن سے ہی اپنے کردار اور خوش اخلاقی کی وجہ سے اپنے دیگر ہم عمر لڑکوں سے مختلف تھے۔ اور پاک فوج میں ساڑھے 4 سال کی مختصر سروس کے دوران اُن کی شاندار پیشہ ورانہ رپورٹس اور ملٹری کورسز ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ علاوہ ازیں، کیپٹن فیاض نے ایسڈ ٹیسٹ میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاک آرمی کے شوٹنگ مقابلوں میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مارچ 2009ء میں سوات روانہ ہونے سے قبل کیپٹن فیاض پنوں عاقل کینٹ میں تعینات تھے اور اُن کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں جنہیں اُن کے اہلخانہ کو فی الوقت، اُن کی سوات سے وآپسی تک کے عرصے کے لئے مؤخر کرنا پڑا۔
اس وقت پاک فوج کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جب کانجو کے قریب واقع کبل کا دورہ کیا تو کیپٹن فیاض احمد شہید نے ہی اُنہیں سوات آپریشن سے متعلق بریفنگ دی۔ جس سے جنرل کیانی اس نوجوان افسر کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کیپٹن فیاض کو دس ہزار روپے بطور انعام پیش کرنے کے ساتھ ہی ان کے روشن مستقبل سے متعلق کچھ یوں پیشنگوئی کی کہ، “یہ نوجوان بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہے دیکھنا بہت آگے تک جائے گا”۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ جنرل کیانی کے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ اتنی جلدی اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اقدس میں مقبولیت کے شرف سے فیضیاب ہونگے اور اللہ تعالیٰ کیپٹن فیاض کواپنے چنے ہوئے چند مخصوص لوگوں کی فہرست میں شامل کرنے کی غرض سے اِنہیں شہادت کی سعادت کے لئے منتخب کر لے گا۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مادروطن پر قربان ہونے والے پاکستان کے اس فرزند نے اپنی شہادت سے قبل سوات میں ایسے ملٹری آپریشنز میں بھی آگے بڑھ کر قیادت کی، جن کے نتیجے میں کالعدم تنظیم’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی’ کی مرکزی قیادت کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اور انہوں نے رضاکرانہ طور پر پاک فوج کی ان گاڑیوں کو بازیاب کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا جنہیں طالبان نے پاک فوج کے قافلے کو گھات لگا کر قبضے میں لے لیا تھا۔
23 مئی 2009ء کو کیپٹن فیاض کو ان کے دیگر افسران سمیت کانجو، کبل اور تختہ بند پل کے ارد گرد کا علاقہ کلیئر کرانے کا ہدف سونپا گیا۔ اور اگلے کچھ ہی روز میں یہ لڑائی تختہ بند پل تک پھیل گئی جو اس علاقے( کانجو اور کبل) میں داخلے کا مرکزی راستہ ہے۔ اسی دوران بونیر کے اہم ترین قصبے کو بھی پاک فوج نے طالبان کے تسلط سے چھڑوا لیا جہاں طالبان نسبتاً زیادہ تعداد میں نفوز پزیر تھے۔ 28 مئی تک کانجو، کبل مکمل طور پر اور تختہ بند پل جزوی طور پر طالبان کے قبضے سے خالی کرا لئے گئے تھے اور اسی دوران کیپٹن فیاض کے 6 ساتھی افسران اس مشن کی تکمیل میں اپنی جانیں دفاعِ وطن کے عظیم مقصد کی راہ میں قربان کر گئے۔ 6 جون 2009ء کو جب کیپٹن فیاض معمول کے مطابق کبل کے علاقے میں گزشت پر تھے تو کہیں سے اِن پر راکٹ فائر ہوا جو ان کے سینے کو چھلنی کرتا ہوا انہیں شہادت کے رتبے پر سرفراز کر گیا۔ اور یوں 24 سالہ اس نوجوان شہید کے اہلخانہ کے سپنے ہمیشہ کے لئے سپر خاک ہو گئے جو انہوں نے ان کی واپسی پر ان کی شادی سے متعلق سجا رکھے تھے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سےکیپٹن فیاض احمد شہید کو اُن کی اعلیٰ عسکری خدمات کے عوض تمغہ بسالت بعد از شہادت سےنوازا گیا۔ اور ضلع سوات کی انتظامیہ کی جانب سے کبل اور کانجو سے متصل تختہ بند پل کو ان کے نام سے موسوم کیا گیا۔ جہاں سے روزانہ گزرتے ہوئے وادی سوات کے لوگ کیپٹن فیاض کو نہ صرف دعائیں دیتے ہیں بلکہ آج بھی پاکستان کا یہ نوجوان افسر ان کے دلوں میں زندہ ہے اور تا ابد زندہ رہے گا۔ انشاء اللہ!
سوات آپریشن کے دوران ایک امریکی تھنک ٹینک ‘سٹریٹفار’ (جیو پولیٹکل اور غیر سرکاری انٹیلجنس ادارہ) نے پاک فوج کی ‘شہری جنگ’ لڑنے کی استعدادِ کار اور تربیت سازی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کہ دور جدید کے تمام حربی تقاضوں سے لیس امریکی فوج بھی اس قسم کی نازک جنگ(شہری جنگ) میں گھسنے سے پہلے دو بار سوچتی ہے۔ آج دنیا شاہد ہے کہ پاک فوج نے ایک ایسی جنگ (شہری جنگ) میں بھی گراں قدد کامیابی حاصل کی جس کا اسے پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا اور جس کے نام سے بھی امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کی افواج گھبراتیں ہیں۔ مگر پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور عمدہ منصوبہ سازی کو بروئے کار لاتے ہوئے سوات کی حسین وادی کو دہشت گردی کی آگ سے بروقت نکال لیا۔ لہٰذا امریکی تھنک ٹینک ‘سٹریٹفار’ کو چاہیئے کے وہ اپنی ریاست کے جرنیلوں اور افواج کو بتائے کہ وہ پاکستان سے سیکھیں کہ جنگیں کیسے لڑی جاتیں ہیں؟ جنگیں اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈالنے سے نہیں بلکہ قربانیاں دینے سے جیتی جاتیں ہیں۔ اگر قربانی دو گے، تو ہی تم جیتو گے!!!