تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی دو دن پہلے کپتان کی صوفیاء کی دھرتی کراچی آمد نفرتوں اور کدورتوں کے جھلستے صحرا ء میں ”آب ِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی ہے کراچی کی عوام خوف و ہراس کی کیفیت میں تھے عمران خان کی آمد کی خبر پڑھ اور سُن کراُن کے پژ مُردہ چہروں پر خوشی اور شگفتگی کی لہر دوڑ گئی تھی اور جس طرح کراچی کی عوام نے خان اور ریحام خان کا استقبال کیا، ایم کیو ایم کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور جنابِ نبیل گبول نے تو ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کا پول کھول کے رکھ دیا ہے کہ کس طرح وہ جیتے بلکہ کس طرح اُنہیں جتوایا گیا ۔۔۔۔نائن زیرو والوں نے پورے کراچی کو یرغمال بنا کے رکھا ہوا تھا، ہر شخص ڈرا اور سہما ہوا تھا ، بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں اور خواتین کے سروں پر خوف کی چادر تنی ہوئی تھی وہ اپنے آپ کو ڈر اور خوف کے حصار میں گھِرا محسوس کرتے تھے اب خوف کی چادر آہستہ آہستہ سِرک رہی ہے پہلے تو رینجر ز نے ”نائن زیرو ” پر چھاپہ مار کے ”الطاف بھائی ” کی اصلیت عوام کے سامنے ظاہر کر دی ،رہی سہی کسر صولت مرزا نے پوری کردی اس سے عوام سُکھ کا سانس لینے لگی ہے،اب ایسی صورتحال میںعمران خان کو اپنے پتے سنبھال سنبھال کے استعمال کرنا ہوں گے۔۔۔۔۔
کراچی کی عوام خوف کے حصار میں گھرے تھے تو عمران خان ایسے لوگوں کے حصار میں گھِرے ہیںجنہوں نے ہمیشہ غریب عوام کو ”شُودر ” سمجھا ہے ، کپتان کے اِردا گرد پھیرے لگانے والے بھی اُسی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے ”ڈی چوک ” دھرنا میں شریک عوام کو پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر ”چنگڑ ” مُصلی ”میلا کچیلا ”بد بو دار ”تعفن زدہ ”گھِن زدہ ”اور نہ جانے کن کن ”ملغظاتِ کثیفہ ” اور ”تبکساتِ غلیظہ ”سے یاد فر مایا ۔۔۔ یہ قریشی ، یہ ترین ، یہ قصوری ، یہ علیم خان ، یہ محمود الرشید ٹائپ لینڈ مافیا سمیت سب ”مالشیے ” ہیںمجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں جنرل الیکشن میں شاہ محمود قریشی ، عمران خان کو بلیک میل نہ کرنا شروع کردے ، کیونکہ ”شاہ”اِتنا بھی محب ِ وطن نہیں جتنا خان اُسے سمجھنے لگا ہے یہ ”صوفی سوپ ” سے دُھلی ہوئی مخلوق نہیں ہے اِ ن کا کریکٹر بھی عوام سے پوشیدہ نہیں ہے اور دوسری طرف آمر جرنیل مشرف کی سربراہی میں چلنے والی ق لیگی حکومت کے وزیر اور ممبرانِ اسمبلی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی پہلے تو چوہے کی طرح بِلوں میں گھُسے ہوئے تھے اور اب موقع دیکھ کرآہستہ آہستہ “انصاف “کے علمبردار بن رہے ہیںبلکہ بنے ہوئے ہیں “شرم اِن کو مگر نہیں آتی” خرِ عیسیٰ گر بہ مکہ روَد،چوں باز آئید ہنوز خر با شد(عیسی ٰ علیہ السلام کا گدھا خواہ مکہ چلا جائے جب واپس آئے گا تو گدھا ہی رہے گا)
پاکِستانی عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ اِن “انصاف پسند ” غنڈوں کی فوج ظفر موج جس نے مشرف کو 100 بار وردی میں منتخب کروانے کے اعلانِ “با ضمیر ” کیے تھے کو کیسے بھول جائیں ۔۔۔۔۔؟یہ جہاں بھی چلے جائیں غریب عوام لُٹے ہوئے بپھرے زخمی چیتوں کی طرح اِنکا پیچھا کریں گے اور بذریعہ اِلیکشن ہی اِنہیں بھَسم کر ڈالیں گے اِنہوں نے تو لال مسجد کے اندرجلی ہوئی دینی کُتب کو غلیظ جمعداروں کے پھاوڑوںسے اکٹھا کر کے ٹرکوں سے گندگی کے ڈھیروں پر پھنکوا دیا تھااور حافظ بچوں اور بچیوں کے بھسم شدہ اجسام ، ہڈیوں اور پھٹے ہوئے قُرآنی سپاروں کو گٹروں میں بہا ڈالاتھا۔۔۔۔۔اِن ہمیشہ مقتدررہنے والے غنڈوں کے بدبو دار اجسام کسی بھی پارٹی میں شامِل ہو کر اُسے پلید اور بدبو دار تو بنا سکتے ہیںمگر فلاح و بہبود کرنا اِن کی قسمت میں ہی نہ ہے ان پر خدائے عزوجل کا قہر نازل ہونا ہی ہے جہاں جائیں گے اپنے ساتھ اُن کو بھی تباہ و برباد کر ڈالیں گے کہ گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پِس جاتا ہے ان کے اندر گھسنے اور”انصاف” کے نعرے بلند کرنے سے اب تحریکِ انصاف کے کارکن خود شرماتے ہیں کہ اب ڈاکو لٹیرے اور غنڈے انصاف کے علمبردار بن کر کارکنوں پر سوار ہو گئے ہیںکیا لغار ی ،ترین، قصوری اور قریشی جیسے جاگیردار ،وڈیرے اب غریب عوام کی خوشحالی کے علمبردار بن سکتے ہیں۔۔۔۔؟ توبہ بھلی کیوں غریب عوام کو بیوقوف بناتے ہو۔۔۔۔۔؟یہ اقتدار تک پہنچنے کی طوائف الملوکی ایسی کہ بڑے بڑے پارسا بھی شرماتے ،لجاتے اور گنہگار ہو جاتے ہیںیوں تو مشرف کی دیر رات تک سجنے والی صدارتی محل کی محفِل ایک اعلیٰ ترین بیرونی نائٹ کلب سے کسی طور بھی کم نہیں ہوتی تھی جہاں پر سازوخُمار کی سبھی لوازمات بدرجہء اُتم موجود ہوتی تھیںاسکے اندر جانے اور وہاںرت جگے کرنے والے کیسے” ُملاں” اور پارسا رہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
Pervez Musharraf
مشرف جیسے سازِندے کے یار اُسکی محفلوں کو سجانے والے کیسے پاک صاف ہو کر سامنے آ گئے ہیں؟ او رہاشمی تو” انصاف ”کا جھنڈا پھینک کر اب پھر شریفین کی گود میں بیٹھنے کا انتظار کر رہا ہے ۔۔۔۔۔ ۔گورنر شپ کے انتظار میں بے چارہ بوڑھا ہو جائے گا مگر ۔۔۔۔۔۔۔؟ امریکہ کو ہمارے بُزدل جرنیل(پرویز مشرف) نے شمسی ایئر بیس القائدہ سے لڑنے کے لیئے دی تھی لیکن اس نے ہماری چوکیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیاتھاہمارے ہی غریب معصوم لوگوں کو ڈرون حملوں سے قتل کرنا شروع کر دیاتھا”سپنی کو دودھ پِلایا اُس نے بالآخر ڈنگ مارا”۔اب ڈھول پیٹا جا رہا ہے کہ 10برس بعد شمسی ایئر بیس سے امریکی پرچم اُتار لیا گیا ہے لیکن کوئی اس پر زبان نہیں کھولتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ارضِ مقدس پرایک مملکت” ریاست ہاے متحدہ امریکہ” 10 برس تک کیونکر قائم رہی کس نے اسکی اجازت دی،کس نے کتنا مال بنایاکہاں جمع کروایایا ڈانس اور زنا خوری میں ضائع فرمایاکس پلیٹ فارم سے اسکی منظوری ہوئی،وہ تحریر کہاں لکھی،کہاں محفوظ کی گئی کون کون سامراج کا گماشتہ بنا میر صادق و میر جعفر کا کردارکیسے اور کیونکر ادا ہوا۔۔۔۔؟بلوچستان میں جو آج خطرناک ترین صورتحال ہے وہ کس نے پیدا کی اکبر بگٹی کو کس نے قتل کیااور کرایا۔۔۔۔۔پاکستانی میڈیا اس پر روشنی ڈالنے سے کیونکر معذور ہے؟کس نے طنابیں کھینچ رکھی ہیں
پاکستان میں”انقلاب کا سونامی”لانے والے اقتدار”دان” فرمانے والے “سامراجی دیوی” کا طواف اور اُنکے چرنوں کو بوسہ دے آئے ہیں؟اور یہ لوگ مزید ٹیکس لگا کر عوام کا مہنگائی کے ہمالہ کے نیچے کچومر نکالنے پر تُلے بیٹھے ہیں عمران خان صاحب! کنونشن لیگ کے خالِق ایوب خان، ملک توڑنے والے یحییٰ خان کے ادوار کو بھی یاد رکھو،بُھٹو کو گھیرنے والے فراڈی غریب مزارعین جاگیر دار جنہوں نے اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچایا اور ضیاء الحقی مجلسِِ شوریٰ اور مشرفی ق لیگی حواریوں کو بھی ذہن میں رکھوکہ”یہ فصلی بٹیرے ،نہ تیرے نہ میرے۔۔۔۔ جہاں پائیں دانہ،وہاں ڈالیں ڈیرے”کیا عمران خان اب اِن وڈیروں کو حق کا کلمہ پڑھوائیں گے؟ یہودی پروٹوکول میں واضح لکھا ہے کہ ہم دنیا بھر کے پریس پر کنٹرول رکھتے ہیںاور ہماری مرضی پر ہی اُتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے تو مخصوص لیڈروں کی نمائش اور پبلسٹی بھی انھی کے دروں پر سجدہ ریز لوگوں کی ہی ہو سکتی ہے۔اس لیئے کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ اب جاگیر دار ابنِ جاگیر دار، ابنِ انگریزی سامراج ذہنی غُلامیت کے شکار لوگ مُلک کو اسلامی فلاحی مُملکت بنائیں گے۔کبھی نہیں!کبھی نہیں! انکو اپنی اسمبلی کی سیٹیں چاہیئں جو پارٹی غریب کارکنوں کی محنت سے پاپولر ہوتی دکھائی دیتی ہے اسی میں رُوسیاہ اپنا ایجنڈہ لیکر گُھس جاتے ہیں۔جنرل مشرف کے چرنوںاور دیگر آمروں کی گود میں پلنے والے اقتدار پسند اور انگریزوں کو ”باپو” کہنے والے بھی محبِ وطن ہو جائیں گے یہ تصور کرنا بھی محال ہے۔خدا رحم کرے ہمارے دیس پر!اب اگر کراچی کے ضمنی الیکشن رینجرز کی نگرانی میں ہوتے ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی سیٹ وِن کر لے گی اور ”الطاف بھائی ” کی مقبولیت بھی سامنے آجائے گی کہ کراچی میں ایم کیو ایم کتنا عوامی مینڈیٹ لیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟
عمران کی عوام میں ساکھ ہے مگر جب اِن کی ٹیم کو دیکھتا ہوں تو دِل سے ایک دُعا نکلتی ہے کہ ”عمران تینوں رب دیاں رکھاں ”پورے پاکستان کی طرح ضلع لیہ میں بھی پی ٹی آئی کی ٹیم کوئی قابل ِ رشک نہیں ہے وہی کھتران ، وہی مہر ، وہی سہو ، وہی جکھڑ ،وہی سیہڑ، وہی سامٹیے ، وہی بپی ، وہی چور اُچکے ، بد معاش اور عیاش جنہوں نے ضلع لیہ کی عوام کا خون جونکوں کی طرح چوسا ہے اِن سیاسی چڑیلوں سے نہ جانے کب جان چھوٹے گی ۔۔۔۔۔۔؟رانا عثمان ، سید جان پٹھان ، ظریف خان ، غفار خان ، شمس پٹھان کا مقدر فقط اپنی قیادت کے لیے نعرے ہی لگا نا ہے ، پکی پکائی دیگ کے سائیں کوئی اور ہوں گے اِن بے لوث ورکرز کے نصیب میں فقط خالی پلیٹیں اور چمچے ہی ہیں ۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ”چمچوں ” سے بھی محفوظ رکھے (آمین )