تحریر : اختر سردار چودھری راجہ محمد سرور عید کے دن 10 نومبر 1910 ء موضع سنگوری تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی پیدا ہوئے ان کی شہادت بھی عید کے دوسرے دن ہوئی ۔یہ علاقہ بنجر اور زیادہ تر غیر آباد ہے ۔یہاں کاشت کاری کم ہوتی ہے زیادہ تر لوگ فوج میں ملازم ہیں ۔آپ کے والد بھی آپ کو فوج میں بھرتی کروانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔اس کے لیے اس کی تعلیم کا بندوبست ہوا چونکہ آپ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔اس لیے ابتدائی تعلیم گاؤں کی مسجد میں حاصل کی۔ چھ برس کے ہوئے تو ان کے والد نے انہیں چک نمبر 229۔گ ب ضلع فیصل آباد کے مقامی سکول میں داخل کروا دیا۔یہاں سے پانچویں کلاس پاس کی۔1925 ء میں مڈل سکول سے آٹھویں۔سترہ سال کی عمر میں 1927 ء میں میٹرک اول پوزیشن حاصل کی۔ان کے خاندان کے بہت سارے افراد فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
ان کے والد جناب محمد حیات خاں فوج میں حوالدار تھے ۔ انگریز حکومت نے ان کو پہلی جنگِ عظیم میں بہادری سے بھرپور کارنامے سر انجام دینے پر 3 مربع زمین الاٹ کی تھی۔ 23 فروری 1932 ء کو محمد سرور شہید کے والد جناب محمد حیات خاں کا انتقال ہوا۔ان کی اولاد میں بڑا بیٹا محمد مرزا خاں جو فوج سے میجر کے عہدے پر ریٹائرڈ ہوئے ۔ان کو بھی ایک مربع زمین دلیری اور بہادری کی وجہ سے انعام ملی ۔دوسرے بیٹے یعنی راجہ محمد سرورکے دوسرے بھائی محمد سردار خاں بھی فوج میں حوالدار تھے۔
کیپٹن راجہ محمد سرور شہید ، محمد حیات خاں کے چوتھے اور سب سے چھوٹے بیٹے تھے جو نشانِ حیدر حاصل کر کے خاندان اور مملکتِ پاکستان کے لئے فخر و ناز کا باعث بنے۔ جب انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ محمد سرور شہید 1929 میں بلوچ رجمنٹ میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے۔کراچی میں ابتدائی فوجی کورس کیا ۔دو سال شمال مغربی سرحدی صوبے میں خدمات سر انجام دیں۔1941 ء میں اسی رجمنٹ میںحوالدار کے عہدے تک پہنچے ۔ ڈرائیونگ کا کورس کیا۔
Captain Raja Mohammad Sarwar
1941 ء میں وہ رائل انڈین آرمی میں جونئیر کمشنڈ آفیسر منتخب ہوئے اور وی سی او سکولف رائل انڈین سروس کور میں انسٹرکٹر کی خدمات سر انجام دینے لگے۔ 19 مارچ 1944 ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ بنے۔27 اپریل 1944 ء کو یہ لیفٹیننٹ بنا دئیے گئے ۔یکم فروری 1947 ء کی تاریخ محمد سرور شہید کی زندگی میں بے حد اہم تھی۔انہیں کیپٹن کا عہدہ دیا گیا۔ محمد سرور شہید درمیانے قد،سڈول جسم،متناسب اعضاء ، موٹی آنکھوں، بارعب آواز، گندمی رنگ اور بھاری مونچھوں کے حامل تھے۔ تلاوت قرآن پاک،نماز کے پابند اور مطالعے کے شوقین تھے۔ محمد سرور شہید علامہ اقبال سے بھی بہت محبت رکھتے تھے اور ان کے بے شمار شعر انہیں زبانی یاد تھے۔
کبڈی اور فٹبال محمد سرور شہید کے پسندیدہ کھیل تھے ۔ان کے حالات زندگی میں یہ واقعہ قابل توجہ ہے کہ ایک بڑھیا کو دینے کے لئے ان کی جیب میں ریزگاری نہ تھی۔ تو اس سے باقاعدہ معافی مانگی۔ کچھ دور گئے تو دل بے تاب ہو اٹھا۔ گوارا نہ کیا کہ محض ریزگاری نہ ہونے کے باعث اللہ کے نام پر دینے سے انکار کر دیا۔ فوراََ واپس آئے ۔ بڑھیا تلاش بسیار کے بعد ملی تو اس سے دوبارہ معافی مانگی اور حسب توفیق مدد کی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ان کی شادی ان کے خاندان میںخوش شکل وخوش اخلاق خاتون کرم جان سے ہوئی۔شادی کی تقریب بے حد سادہ اور اسلامی روایات کے مطابق 15 مارچ 1936 ء کو ہوئی۔
جولائی 1948 میں دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر پہنچے تو اوڑی کے مقام پر ایک پہاڑی دشمن کے قبضے میں تھی۔ضروری تھا کہ دشمن کے قبضے سے اس پہاڑی کو آزاد کرایا جائے۔ایک دن کمانڈر نے اپنے جوانوں کو اکٹھا کیا اور کہا۔”یہ پہاڑی ہمارے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے ۔جو جوان اس مہم کا بیڑا اٹھا سکتا ہو، آگے آ جائے ۔”پوری کمپنی پر سناٹا چھا گیا۔ ہر شخص جانتا تھا کہ یہ موت کے منہ میں جانے والی بات ہے ۔”یس سر،میں اس مہم کا بیڑا اٹھاتا ہوں سر”محمد سرور نے کہا ۔۔ 27 جولائی 1948 ء کی رات محمد سرور شہید اپنے جوانوں کے ساتھ ٹارگٹ کی طرف بڑھے ۔توپوں اورمشین گنوں سے گولے اور فائرنگ ہو رہی تھی ۔برستی گولیوں میں محمد سرور اپنی بٹالین کی قیادت کرتے ہوئے سب سے آگے آگے تھے۔
Mohammad Sarwar
اس دوران کئی جوان موت سے گلے مل گئے۔ ساتھیوں کی تعداد میں کمی ہونے لگی کیونکہ دشمن بلندی پر تھا ۔آپ ان کے سیدھے ٹارگٹ پر تھے ۔لیکن اس کمی نے حوصلہ کم نہیں کیا بلکہ بڑھایا ۔اسی وقت ایک گولی نے محمد سرور شہید کا دایاں شانہ چیر کر رکھ دیا۔خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔دشمن کی گولیاں ان کے دائیں بائیں سے اور سر کے اوپر سے گزر رہی تھیں۔وہ گولیوں کی بچھاڑ میں آگے بڑھتے رہے ان کے زخموں سے خون جاری تھا ۔آخر وہ اس مورچے تک جا پہنچے جہاں سے گولیاں برسائی جا رہی تھیں ۔اور باڑ کاٹنے لگے ۔آخری تار کٹنے کو تھی کہ دشمن کی فائرنگ نے محمد سرور شہید کا سینہ چھلنی کر دیا۔
ایک جھٹکے سے انہوں نے آخری تار کو دو حصوں میںکاٹا ۔دشمن پر آخری برسٹ کے ساتھ ”اللہ اکبر” کے الفاظ ادا کرتے ہوئے رب کے حضور لبیک کہہ دیا۔دشمن اس چوکی کو چھوڑ کر بھاگ گیا ۔ صبح کے سورج نے اس پہاڑی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا۔ جنرل اسکندر مرزا کا دور تھا جب 23 مارچ 1957 کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر اس نے کیپٹن محمد سرور شہید کے اس زندہ جاوید کارنامے پر انہیں نشانِ حید دینے کا اعلان کیا مگر یہ اعزاز دینے کی تقریب فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے دورِ حکومت میں 27 اکتوبر کو منعقد ہوئی۔ تقریب راولپنڈی میں منعقد ہوئی جہاںان کی بیگم محترمہ کرم جان کو کیپٹن محمد سرور شہید کا نشانِ حیدر دیا گیا۔
پاکستان کی عسکری تاریخ کا پہلا اور سب سے بڑا اعزاز نشانِ حیدر جو آنے والی نسلوں کو ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا جنرل ایوب خاں نے اپنے خطاب میں کہا ۔”میں کیپٹن محمد سرور شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں جنہوں نے سب سے پہلا نشانِ حیدر حاصل کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔انہوں نے اپنی قربانی سے اپنی فوج اور اپنی بٹالین کا نام ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا ہے ۔بے شک ان کی قربانی پر ہم سب کو فخر ہے۔”