تحریر : خواجہ مظہر گنجیال سب سے پہلے تو میں آپ دوستوں کو بتانا چاھوں گا کہ میرا تعلق جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پارٹی سے ھے اور میں عمران خان اور طاھر القادری کو اس لئیے سپورٹ کرتا ھوں کیوں کہ ان دونوں کے خیالات پاکستان کے لئیے پرویز مشرف سے الگ نہیں ھیں. لیکن آج مجھے عمران خان نے اپنا حقیقی عقیدت مند بنا لیا. ویسے تو میں آج کل تقریبا” روز ھی عمران خان اور طاھر القادری کے خطابات سنتا ھوں
آج عمران خان نے اپنے خطاب میں کچھ ایسا کہا جس نے میرے دل و دماغ میں ایک سنسنی برپا کر دی. عمران خان کے خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ ھمیں تعلیمی دوڑ میں تین گروھوں میں بانٹ دیا گیا ھے انگلش میڈیم اردو میڈیم اور دینی مدارس.
اسی وجہ سے آج ھم اس موڑ پر ھیں کہ ھم میں سے کسی کو نہیں پتہ کہ وہ کون ھے کیا ھم انگریز ھیں یا ھندو یا مسلم؟ میرا ذاتی خیال ھے کہ ھم کچھ بھی نہیں ماسوائے انگلش ھندی اور اسلامی مکسچر کے. آج جب عمران خان نے کہا کہ ھمارا شعار ھمارا وقار ھمارا معیار کسی دور میں ھمارے دینی اور سائنسی مدارس تھے جو الگ الگ نہیں
Imran Khan
بلکہ ایک ھی چھت کے نیچے تھے اور ان مدارس سے ھمارے دنیا میں نام کمانے والے علماء سائینسدان اور رھنما پیدا ھوتے تھے. عمران خان کی آج کی یہ باتیں سن کر محسوس ھوا کہ حقیقتا” یہ رھنما اس بکھری قوم کو کس سمت لے جانا چاھتا ھے. یہ رھنما اس قوم کو دوبارہ بغداد کی لائبریری دینا چاھتا ھے
یہ رھنما دوبارہ اس قوم کو خلافت عثمانیہ لوٹانا چاھتا ھے چاھے اس کے لئیے اس رھنما کو کوئی بھی داؤ کھیلنا پڑے. اس رھنما کو یہ بھی معلوم ھے کہ اس کے کھیلے داؤ کو کوئی کچھ بھی رنگ دے سکتا ھے کوئی آوازے بھی کس سکتا ھے
Protest
لیکن اس رھنما کو یہ بھی معلوم ھے کہ جس دور میں کھڑا ھے اسی دور کے داؤ پیچ کھیل کر ھی وہ اس قوم کو اس کے اصلی مقام کہ جس کی یہ قوم حقدار ھے اور بس اس کو بھٹکا دیا گیا ھے وھاں تک پہنچا سکتا ھے.