قبضہ گروپوں کی آمد کے ساتھ ہی ایوان میں زلزلے کا سماں تھا اسمبلی کے در ودیوار سہمے سہمے انداز میں نئے آنے والے ممبران کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے کہ جن کی کہانیاں ان کے آنے سے پہلے ہی سن چکے تھے اب انکے مستقبل کے ہنگاموں سے لرزہ تھے پنجاب اسمبلی کی شان و شوکت کے یہ نگہبان بنتے ہیں یا اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کمیشن مافیااور قبضہ گروپوں کے ایجنٹ بنتے ہیں اسمبلی کے پہلے اجلاس سے قبل ہی اراکین اسمبلی کے ایم پی اے ہاسٹل پر قبضے نے یہ تو ثابت کردیا۔
جس کام کی ابتداء ہی غلط ہو بنیاد ہی ٹیڑھی رکھ دی جائے تو پھر اس عمارت کی پائیداری کس طرح ممکن ہوسکتی ہے یکم جون بروز ہفتہ کو پنجاب اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا مگر اجلاس سے قبل ہی نو منتخب اراکین اسمبلی نے اجلاس شروع ہونے سے کئی دن قبل ایم پی اے ہاسٹل پر یوں قبضہ کرلیاجیسے قبضہ گروپ کسی سرکاری اراضی کو مال غنیمت سمجھ کر قبضہ کرلیتے ہیں اور اسمبلی ملازمین کو مجبورا ان ایم پی اے حضرات کو کمرے الاٹ کرنا پڑے جنہوں نے اپنے آدمیوں کے زریعے پہلے قبضہ کرلیا تھا۔
پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کی ابتداء ہی قبضہ گروپوں اور رسہ گیروں سے ہو رہی ہے اب اللہ ہم پر رحم فرمائے کہ آنے والے دنوں میں ہم ان کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں گے کہ نہیں ورنہ ان کے آنے کے آثار توانتہائی خطرناک ہیں جو کام ابتداء میں ہی شروع ہو چکا ہے اس کا انجام کہاں پہنچ کر دم لے گا اس وقت نہ صرف ہمارے منتخب کردہ نمائندگان بلکہ پنجاب کے تقریبا سبھی محکموں کا برا حال ہے میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ملازمتوں اور پر کشش عہدوں کی لوٹ مار لگی ہے بلخصوص مختلف اداروں کے سربراہوں کے سیٹوں پر تو ایسی بندر بانٹ ہے۔
جونیئر کو سینئر کی جگہ ادارے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف میرٹ میرٹ کی گردان الاپنے والی حکومت اور اپنے آپ کو خادم اعلی کہلانے والے میاں شہباز شریف کی بھی نیک نامی پر سوالیہ نشان ہے اب پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ کو ہی دیکھ لیا جائے تو اس پر حکمرانی کسی اور کی رہی جبکہ اس کے سربراہ جونیئر اور رسمی تھے جن کا کام صرف دستخط کرنا ہی تھا اب ایک بار پھر اس محکمہ کو ڈی جی کی ضرورت ہے مگر اس بار بھی لگتا ہے۔
Shahbaz Sharif
میرٹ سے ہٹ کر کسی ایسے افسر کو لگا دیا جائے گا جو نہ تو حکومت کا دفاع کرسکے گا اور نہ ہی اسکے صحافیوں سے بہتر تعلقات ہونگے جس طرح ماضی میں ہوتا رہا اور جو اس محکمہ میں کام کرنے والے افسر ہیں ان کو اس بار بھی ہمیشہ کی طرح کھڈے لائن ہی لگادیا جائے گا اس وقت پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ میں اگر دیکھا جائے کہ میرٹ پر ڈی جی کون بن سکتا ہے تو میرٹ لسٹ کے مطابق اسلم ڈوگر پہلے نمبر پر ہیں جو میاں شہباز شریف کے پچھلے دور میں بطور ڈی جی کام کرچکے ہیں مگر ان کی ناقص کارکرگی کی بدولت انہیں ڈی جی کی سیٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔
جس کے بعد ایک جونیئر افسر کو جو اس وقت وزیر اعلی کے پی آر او تھے اطہر علی خان کو ڈی جی لگا دیا گیاتھا جن کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا ، اسلم ڈوگر کے بعد اس محکمہ میں سنیارٹی کے لحاظ سے نبیلہ غضنفر آتی ہیں جن کا سروس کیریئر شاندار ہے جنہوں نے نہ صرف پنجاب میں خدمات سرانجام دی ہیں بلکہ انہیں دوسرے صوبے میں بھی کام کا تجربہ ہیں اور اس وقت محکمہ پولیس میں بطور ڈائریکٹر بپلک ریلیشنز بہتر کام کررہی ہیں ان کا سروس ریکارڈ بھی بہت اچھا ہے۔
اگر ان کو ڈی جی پی آر لگا دیا جائے تو نہ صرف حکومت کی میرٹ پالیسی پر بھی حرف نہیں آئے گا بلکہ خادم اعلی پنجاب کو بھی کسی نئے تجربے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور انکی حکومت پر میڈیا کی طرف سے جو حملے ہوتے ہیں ان سے بھی بہت حد تک بچا جاسکے گا نبیلہ غضنفر کے بعد اس محکمہ میں اعجاز غوری ہیں جو اس وقت بہاولپور میں بطور ڈائریکٹر کام کررہے ہیں ان میں بھی ڈی جی کی وہ خصوصیت نہیں پائی جاتی جو اس عہدہ کے لیے ایک افسر میں ہونا چاہیے۔
اعجاز غوری کے بعد امجد بھٹی ہیں جو سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے پی آر او تھے اور اس وقت موجودہ ڈی جی پی آر ہیں اور انکے پاس سیکریٹری کا اضافی چارج بھی موجود ہے انکے بارے میں بھی یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے دور میں سیاسی نگران حکومت کا مختلف محاذوں پر دفاع نہ کرسکے جسکی کوئی اپوزیشن بھی نہیں تھی اور اب موجودہ حکومت کی اپوزیشن بھی مضبوط ہوگی تو کیا وہ حکومت کی توقع پر پورا اترسکیں گے انکے بعد رائے نذر حیات کا نمبر آتا ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے آج تک کوئی کام نہیں کیا صرف سفارش کی بنیاد پر اپنا کام کرواتے رہے۔
Punjab
اب بھی سفارش کی بنیاد پر ہی ڈائریکٹر نیوز جیسی اہم سیٹ پر براجمان ہیں اور انکے بارے میں دفتر والے بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ گھر سے دفتر صرف سونے کے لیے ہی آتے ہیں انکے بعد سنیارٹی میں آغا مسعود شورش کا نمبر آتا ہے جن کا صرف مثبت پہلو یہ ہے کہ وہ آغا شورش کاشمیری کے بیٹے ہیں اس کے علاوہ انکے نامہ اعمال میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے ان کی ٹرانسفر سرگودھا ہوئی تو فورا رکوا لی اور ڈائریکٹر کوآرڈی نیشن پر اپنی تعیناتی کروا کر گورنر کے پی آر او بن گئے انکے بعد ضمیر اطہر ہیں جو ساری عمر پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنی خدمات سرانجام دیتا رہے۔
اور اب ڈائریکٹر الیکٹرونک میڈیا کام سرانجام دے رہے ہیں اور موصوف بھی بطور ڈی جی لگنے کے اہل نہیں ہیں انکے بعد چوہدری عارف ہیں جنہوں نے آج تک سرکاری کام کو پارٹ ٹائم بنا رکھا ہے اور اپنے پرائیوٹ بزنس کو سرکار کی طرح چلارہے ہیں انکے بعد احمد علی ہیں جو اس وقت ڈائریکٹر گوجرانوالہ کام میں مصروف ہیں اور وہ صرف اپنی ریٹائرمنٹ کے دن پورے کررہے ہیں اور سب سے آخر میں ابھی حال ہی میں پرموٹ ہونے والی ڈائریکٹر زاہدہ علی ہیں جو گذشتہ ایک لمبے عرصے سے دفتر ہی نہیں آرہی مگر انکے میاں ایک سینئر صحافی ہیں اس لیے انکو سب مراعات گھر بیٹھے ہی مل رہی ہیں۔
اور سب سے مزے کی بات کہ اس محکمہ میں اس وقت علی طاہر جو ڈپٹی ڈائریکٹر ہے بطور ڈائریکٹر اشتہارات کام کررہے ہیںجس کے خلاف محکمہ انٹی کرپشن میں متعدد کیس زیر سماعت ہیں اور وہ قانی طور پر بھی اس عہدہ پر کام نہیں کرسکتے مگر سابقہ حکومت اور اب موجودہ حکومت کی بہترین میرٹ پالیسوں کی دھجیاں اڑتی دیکھنی ہوں تو اس وقت محکمہ تعلقات عامہ ایک مثالی کردار ادا کررہا ہے۔
جہاں پر ہر طرف لوٹ مار کا سماء ہے اس وقت محکمہ تعلقات عامہ کا محکمہ ایک یتیم اور بے سہارا بچے کی مانند ہے جیسے بروقت اچھا سرپرست نہ ملا تو پھر اس کا بھی خانہ خراب ہی سمجھیں کیونکہ یہاں پہلے ہی خراب گاڑیوں کا قبرستان کے ساتھ ساتھ ایک عدد دربار تو موجود ہی ہے اب ان میں اور اضافہ نہ ہو جائے ۔