موجودہ دور کے قبضہ مافیہ سینیٹر کو کچھ نہ کہو

Azam Khan Swati

Azam Khan Swati

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

قیام پاکستان کے فوراََ بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے سرکاری ملازمین پر واضح کر دیا تھا کہ سرکاری ملازمین عوام کے خادم ہیں۔وہ کسی کا بھی غیرقانونی حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔آج کے مقتدر کیا خوب ’’خدا کے لہجے ‘‘ میں بولتے ہیں۔کہ ہے کسی کی جرا ء ت کے ان کی حکم عدولی کرے کوئی؟تحقیقات کے مطابق وفاقی وزیر، اعظم سواتی لینڈ مافیہ کا حصہ ہیں۔ در حقیقت یہ معاملہ دو قبضہ مافیہ کا ہے جس میں ایک نحیف اور کمزور قبضہ مافیہ ہے جبکہ ایک مسٹنڈا سینیٹر اور وفاقی وزیر ہے۔جو پاکستان کے دارالحکومت میں کئی کنال وفاق کی زمین پر ناجائز قبضہ جما ئے بیٹھا ہے اور چاہتا ہے کہ غریبوں کے جھونپڑے توڑ کر بھی اس کی ناجائز زمنیوں میں اضافہ کر دیا جائے۔موصوف چاہتے ہیں آس پاس کی قیمتی زمین جس پر قبائلی لوگوں کا قبضہ ہے اور جو کمزور بھی ہیں کو اپنے نا جائز حصے کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وفاقی وزیر کے بیٹے عثمان سواتی نے کیپٹل پو لیس میں ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ ان کے (کمزور) پڑوسی نیاز محمد کی گائے نے ان کے پھلوں کے باغ میں 26 اکتوبر کو گھس کر ان کے پھل( سے لدے) درختوں کو تباہ کر دیا ہے۔ رپورٹ میں لکھوایاگیا کہ نیاز محمد اور اس کے 12سالہ بیٹے نے ان کے ملازمین پر تشدد کیا ہے! جس کے بعدنیاز محمد کو بچے سمیت گرفتار کر لیا گیا ۔کیونکہ وہ سینیٹر اور وزیر کے مقابلے میں بے حد کمزور آدمی ہے۔

دوسری جانب اعظم سواتی نے مذکورہ زمین کے بارے میں اقرار کیا کہ انہوں نے سی ڈی اے کی 6,5 کنال سرکاری زمین پر نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے!! حکمرانوں کے کفگیردودھ کے دھلے ہیں کہ پاکستان کی کسی بھی زمین پر نا جائز قابض ہو جائیں کوئی ان سے پوچھنے ولا نہیں ہے۔کیونکہ انہیں پی ٹی آئی کے سربرہ ،وزیرِ اعظم کی آشیرواد حاصل ہے۔ اور غریب اگر اپنے بچوں کے سر چھپانے کیلئے کہیں جھونپڑا بنا لے تو اقتدار مافیہ اور اس کے حمائتی غریب کے گھرکو بلڈوز کرانے میں ذرا دیر نہیں کر یں گے۔موصوف نے فارم ہاؤس کے نام پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے قانون کی دھجیان بکھیری ہوئی ہیں اور مزید کی حوس لگی ہے۔ اس ناجائز زمین پر موصوف کا فارم ہاؤس چل رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ سی ڈی اے کی منظوری کے بغیر کسی کو بھی زمین پر قبضہ کرنے یا باڑ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اقتدار مافیہ کا حصہ بن جانے کے بعدوزیرِ اعظم کی منظوری سے ناجائز قبضے کرتے رہیں گے؟بلکہ اُن ایماندار اہلکاروں کو جو ان کے ناجائز احکامات کی تعمیل نہیں کریں گے، انہیں غیر قانونی طور پر ان کے فرائضِ منصبی سے روکتے ہوئے ان کے تبادلے، وزیرِ اعظم اپنے زبانی حکم پر فرما دیں گے؟جو ان کا اختیار بھی نہیں ہے۔ایسی گندی گورنس سے تو لوگ بوٹ بردار حکومت کو ترجیح دینے لگیں گے۔

اپنے نا جائز عمل کو پولیس پروٹیکشن کے لئے سینیٹر موصوف نے آئی جی اسلام آباد کو اپنے فرمان کے مطابق درجنوں مرتبہ فون کیا مگر انہوں نے میرا فون نہیں اٹھایا؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ دو مرتبہ میری ان سے بات ہوئیَ۔ کیا موصوف شہنشاہیت مافیہ کا حصہ ہیں کہ ذلے صبحانی کی آواز نہ سننے پر ہر کارے مجبور رہیں!!!حکمران یہ بات کان کھول کر سُن لیں،اس جمہوری ملک میں کسی کی بھی شہنشاہیت ہر گز چلنے نہیں دیجائے گی۔اس ضمن میں چاہے تمہاری حمایت تمہارے پیچھے کھڑے لوگ ہی کیوں نہ کر رہے ہوں!پنکی کے سابق شوہر کو روکنے پر ڈی پی او تبدیل،محمودالرشید کے بیٹے کو روڈ پر عیاشی کرنے سے روکنے پر آئی جی پنجاب تبدیل اور اعظم سواتی کے فون نہ اٹھانے کی شکایت پر آئی جی اسلام آباد تبدیل کیا یہ ہی ہے نیا پاکستان ؟ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کاکہنا ہے کہ جمعرات کو خانہ بدوشوں کے جانور میرے فارم ہاؤس میں گھس آئے میرے ملازم نے انہیں منع کیاتو انہون نے کہا ہم قبائلی لوگ ہیں تمہارے گھر کو بم سے اڑا دیں گے؟وزیر جیسا فرد بھی جھوٹ کے پلندے باندھے تو افسوس کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔جبکہ شواہد بتا رہے ہیں کہ اعظم سواتی کے غنڈوں نے ان لوگوں کے گھر میں گھس کا حملہ کیا تھا جہاں دو بچے اور خوتین تھیں، اور دیواروں پر فائرنگ کے نشانات بھی موجود ہیں۔ دودھ کے دھلے موصوف فرماتے ہیں کہ میں نے ہفتے کی صبح شکایت کی اور اتوار کوآئی جی کوہٹادیا گیا!موصوف مزید اپنے دعوے کو پکا کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ اس واقعے سے پہلے بھی آئی جی سے متعلق کئی شکائتیں آرہی تھیں۔لگتا ہے کہ موصوف کو وزارتِ داخلہ کا بھی چارج دیدیا گیا ہے۔ایسا لگتا ہے اس جمہوری ملک میں عمرن نیازی کی شہنشاہیت لگی ہے ۔جہاں قانون کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر قانون صرف ذلے سبحانی عمران نیازی کا چلے گا ! اور اُن کے زبانی حکم پر وہ وہ کام کر دیئے جائیں گے جس قانون کی حدود میں تصور بھی نہیں کیاجا سکتا ہے۔

اس غیرقانونی اٹھا پٹخ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوو موٹو ایکشن لے کرپولیس معاملات میں مداخلت پر کہا ہے کہ پاکستان کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں قانون کے مطابق چلے گا۔حکومت کی مرضی سے کسی کے تبادلے نہیں ہوسکتے ۔پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی!سرکاری افسر غلط حکم نہ مانیں ۔یہ ریاست کے ملازم ہیں ،کسی کے ذاتی ملازم نہیں۔چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی سینیٹر یا وزیر کے بیٹے کی وجہ سے اداروں کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔یہاں قانون کی حکمرانی ہوگی عدالت ایسی باتیں بر داشت نہیں کرے گی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح ملک نہیں چلانے دیں گے۔ یہاں ایک اور بُزدار بھی نہیں بننے دیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نیازی حکومت پاکستان میں اپنے من پسند پولیس اہلکار لگا کر اس کو پولیس اسٹیٹ میں بدلنا چاہتی ہے۔کیونکہ ابتدائی دنوں میں ہی ان کی انصافی حکومت کا پول خود ان کے لگائے گئے لوگ کھول رہے ہیں۔ہر ہر معاملے میں ناکامی پی ٹی آئی حکومت کا مقدر بن چکی ہے۔چند دنون میں ہی ان لوگوں نے ملک کو تباہی کے گڑھے پر لا کھڑا کیا ہے۔مہنگائی کا طوفان اور معیشت کی تباہی شائد ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے ،جنہوں نے غریب کے منہ کا نالہ بھی چھین لیا ہے۔پی ٹی آئی کی وزارتوں کے سلسلے میں عام خیال ہے کہ ’’ہر شاخ پہ الُو بیٹھا ہے ،انجامِ گلستاں کیا ہوگا؟‘‘اب حالات یہ ہیں کہ موجودہ دورکے قبضہ مافیہ سینیٹر کو کچھ نہ کہو!کیونکہ یہ ذلے سُحانی شہنشاہِ کرکٹ مافیہ بلے بازعمران احمد نیازی کے کئی اعلیٰ رتنوں میں سے ایک ہیں۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbirahmedkarachi@gmail.com

Azam Khan Swati

Azam Khan Swati