تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید آج کا عدالتی نظام ڈوگر کورٹ اور منیر کورٹ کا تسلسل ہے ۔جس کے پیچھے وہ ہی چہرے چھپے ہیں جو ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں اور جن کا ہم بار بار ذ کربھی کرتے رہے ہیں۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’ تم جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘عدلیہ پر ایک قادیانیوں کے پروردہ جنرل پرویز مشرف نے جب پابندی لگانا چاہی تو یہ محمد نواز شریف ہی تھا جس نے ان کو اس جنرل کے عتاب سے بچایا تھا۔آج نواز شریف کے احسانات کا بدلہ بد دیانتی پرمبنی فیصلہ دے کر خوب چکایا گیا ہے!اوراس وقت زرداری جو بے نظیر قتل کا بینی فیشری تھا وہ بھی اُس وقت عدلیہ کو آزاد کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔جنرل کریسی کو بھی مکے دکھا دکھا کر کہتا تھا ’’تم تین سال کے لئے آتے ہو ہم نے ساری عمر رہنا ہے‘‘!مگر آج وہ عدلیہ اور قادیانی جنر کریسی کا سب سے بڑا حامی بن کر سامنے آیا چاہتا ہے۔بعض جنرلز اور ججز کا یہ مخصوص ٹولہ پاکستان میں جمہوریت کو پنپتا دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ان کو ان کے کٹھ پتلی حکمرا ن چاہئیں ہیں ۔آج کل دو ایسے مصنوی چہرے اس کام کے لئے مصروف عمل ہیں جو دونوں ہارے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ان کی پشت پرایک جانب جنرلز کا قادیانی ٹولہ ہے تو دوسری جانب منصف ہیں۔ان دونوں ٹولوں نے ہمیشہ پاکستان کی ترقی کرتی جمہوریت پر وقفے وقفے سے ایک نے شب خون مار تو دوسرے نے اس کو عدالتی راستہ دیا ۔ایک نے اقتدار پر للچائی نظریں ڈالیں تو دوسرے نے انصاف کے نام پر منصفی کے دامن میں پناہ دی۔
پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ جوتین مرتبہ پاکستان کی وزارت اعظمیٰ پر بھی فائز رہے ۔ ان کی بے توقیری کرنے والوں میں وہ ہی لوگ سب سے آگے ہیں جن کو نواز شرف نے آزادی دلوائی!نواز شریف کا کہنا ہے کہ عدلیہ آمروں کو تحفظ دیتی ہے۔ہماری وجہ سے آج عدلیہ آزاد ہے۔لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عدلیہ غیر جمہوری حکمرانوں کو ویلکم کہتی ہے اور آمروں کو تحفظ دیتی ہے۔لوگوں کو جگہ جگہ جاکربتاؤں گا کہ پاکستان کو کیسے ترقی کرتے پٹڑی سے اتارا گیا۔
سُپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے حوالے سے مستقبل کی ابھرتی ہوئی سیاسی رہنما مریم نوازنے واضح کیا ہے کہ قانون اور انصاف بھی شرمندہیں۔مظلوم نواز شریف نہیں مظلوم انصاف خود ہے۔دلیل نہ ہوتے ہوئے منصف خود مخالف وکیل بن گئے ہیں۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ نواز شریف سے انتقام لینے کے لئے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ وہ ہی مریم ہے جس کا ذکر پہلے فیصلے میں نہیں آیا ،اب انتقام لیا جا رہا ہے۔یہ فیصلہ شدید دباؤ پر ہی آسکتا ہے۔
یہاں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر تنخواہ اثاثہ ہے یہ انصاف کی تضحیک ہے! سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر بھی مریم نواز کی بات کی تائد کرتے دکھائی دیئے اور کہا ہے کہ ججز دباؤ میں ہیں انہوں اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔سینئر وکلاء کی ایک بڑی تعداد بھی کہتی ہے کہ اگر نواز شریف کی منی لانڈرنگ کہیں بھی ثابت ہوگء�ۂوتی تو انہیں اقامہ پر نہ نکالا جاتا۔ ’’وائے ناکامی متعِ کاروان جاتا رہا کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘رشید اے رضوی سینئر قانون دان بھی کہتے ہیں کہ سخت آبزرویشن کے بعد ماتحت عدالت کا آزادانہ کام کرنا مشکل ہوگا۔ اس فیصلے کی یہ لائنیں بھی قابلِ غور ہیں’’اعلیٰ ترین عہدے پر بیٹھے شخص کے حواری اہم عہدوں پر فائز ہیں نیبِ آئی بی، اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک اعلیٰ شخصیت کے زیرِ اثر ہیں ،ایف آئی اے اور ایس ای سی پی میں بھی اعلیٰ شخصیت کا اثر و رسوخ ہے‘‘ ہم کہتے ہیں کہ معزز ججوں کو چاہئے کہ وہ وزیرِ اعظم کے تمام اختیارات اپنے ایک فیصلے کے ذریعے صلب کر کے خود لے لیں۔ تاکہ تمام اداروں کے سربراہوں کا خود تقر کرسکیں اور وہ خوداداروں کو چلائیں اور وزیر اعظم کا کوئی اختیار ہی باقی نہ رہے۔
آج کے عادلوں کی زبان،اور ان کے اپنے غیر پارلیمانی اور متعصبانہ جملے خود ان پر ہی صادق آتے دکھائی دیتے ہیں ۔جس طرح کی سخت زبان اس فیصلے میں اختیار کی گئی ہے وہ منصفٖوں کے شایان شان نہیں بلکہ ان کے تعصب کی غماضی کر رہی ہے۔کہا جاتا ہے کہ عدالتیں نہیں اُن کے فیصلے بولتے ہیں۔مگر یہاں تو فیصلے جس طرح خاموش ہیں اسی طرح عدالتیں بولتی دکھائی دیں ، اور وہا ں پر برجمان منصف خوب خوب بول رہے ہیں۔ میرے وطن کو یہ دن بھی دیکھنا ہی تھے، ابھی تو ابتداء ہے۔لگتا یوں ہے کہ ان لوگوں نے مارچ سے پہلے ہی مسلم لیگ ن کی حکومت کو چلتا کرنے کی منصوبہ بندی شائد کر لی گئی ہے۔شائدبعض جنرلزکے دباؤ میں ججز نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ بہر صورت عمران نیازی کو وزارتِ عظمی ٰپر بٹھانے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کوشش کے پیچھے بقول جاوید ہاشمی کے موجودہ عدالتیں کھڑی ہوں گی۔ اس سے میرے وطنِ عزیز کو چاہے جو بھی نقصان اٹھانا پڑے! کیونکہ ماضی کا عدلیہ کا ریکارڈ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے دوسری عدالتوں کو محدود وقت کا پابند کرنا اور ان پر اپنا چوکیدار بٹھانایہ تمام باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہنہ تو سینٹ کے انتخابات ہونے دینا ہیں ۔ نواز شریف کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں پابند سلا سل کرنا ہے اور مسلم لیگ ن کو اقتدار میں نہیں آنے دینا !ان کا مقدر ٹہرا دیا گیا ہے۔مگر نا جانے کیوں مریم نواز اور عوام پھر بھی کہہ رہے ہیں روک سکو تو روک لو…شیر ایک واری فیر…. سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے فیصلے میں لکھے گئے شعر پر کہا ہے کہ سوال رہبری کا نہیں منصفی کا ہے۔پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ (جمہوریت کے)قافلے کیوں لُٹے؟کن رہزنوں نے لوٹے (منصفوں کی جانب سے)رہزنوں کی وفاداری کے حلف اٹھائے گئے اور ان سے بیعت کی۔
رہزنی کو جواز دینے کے لئے نظریہء ضرورت ایجاد کئے۔مسلم لیگ کا موقف بھی یہ ہی ہے کہ فیصلے کے الفاظ عدالتی زبان کے مطابق نہیں، ماتحت عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔اپیل کا فیصلہ بھی سُنا دیا گیا ہے۔رہبر پیشاں بھگت رہے ہیں بتایا جائے رہزن کہاں ہیں؟ اس ضمن میں انصاف کے کرتاز پر لکھے گئے شعر پر مریم نواز کہتی ہیں ’’مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تری منصفی کا سوال ہے؟‘‘
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com