تحریر : پروفیسر رفعت مظہر شریف النفس قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سید ہیں اور ہمارے ہاں آلِ نبی کا احترام ایسے ہی کیا جاتا ہے جیسے وزیراطلاعات پرویز رشید نے سیدخورشید شاہ کا کیا۔ ہوا یوں کہ سیدخورشیدشاہ نے پرویزرشید صاحب کو کھجوروں کا تحفہ بھیجا۔ جس کاوزیراطلاعات نے شاہ صاحب کے چیمبر میں جا کر نہ صرف اس کا شکریہ ادا کیا بلکہ احتراماً گھٹنے بھی چھوئے۔ آکسفورڈ کے پڑھے بلاول زرداری دور کی کوڑی لائے، انھوں نے پرویزرشید کے اس عمل کو اور ہی معانی پہناتے ہوئے ٹویٹ کیا ”ن لیگ والے جب مشکل میں ہوتے ہیں تو پائوں پکڑ لیتے ہیں، لیکن مشکل سے نکلتے ہی گلا پکڑتے ہیں” یہ دراصل حوالہ تھا 2014ء کے دھرنوں کا جب پیپلزپارٹی نوازلیگ کے ساتھ کھڑی تھی۔ تب بھی پیپلزپارٹی کے نخرے اٹھاتے اٹھاتے نوازلیگ تھک بلکہ ”ہپھ” چکی تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اعتزاز احسن کا چودھری نثار احمد کے ساتھ معاندانہ رویہ سبھی نے دیکھا اور میاںنوازشریف کی بے بسی بھی۔
بلاول نے مشکل سے نکلنے کے بعد گلا پکڑنے کی جو بات کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی بزعم خویش یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس نے چونکہ نوازلیگ کا بھرپور ساتھ دیا تھا اس لیے اب کرپشن کے معاملے میں نوازحکومت ”ہتھ ہولا” رکھے گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے کرپٹ لوگوں کی پکڑدھکڑ ایسے شروع ہوئی کہ کئی پکڑے گئے، کچھ نے عبوری ضمانتیں کروا لیں اور کچھ باہر کھسک گئے۔ ڈاکٹر عاصم کے معاملے پر تو پیپلزپارٹی بھڑک ہی اٹھی، کیونکہ وہ آصف زرداری کا دستِ راست تھا اور دروغ بر گردنِ راوی زرداری صاحب کا کارندہ۔ اب اسی پکڑدھکڑ کا بدلہ پیپلزپارٹی ”پاناماپیپرز” پر شور مچا کر لے رہی ہے۔
وزیراعظم تو دوبارہ تحقیقات کا عندیہ دے چکے۔ وہ اپنے بچوں کو کسی بھی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن اپوزیشن کی نیت تحقیقات نہیں وزیراعظم کی چھٹی کروانا لگتی ہے۔ آج کل اپوزیشن کا کردار پیپلزپارٹی سے زیادہ تحریک انصاف ادا کر رہی ہے اور بلاول زرداری اس کی ہاں میں ہاں ملانا اپنا فرض عین سمجھتا ہے۔ اس کو ”چورمچائے شور” کہتے ہیں۔ طلال چودھری نے بلاول زرداری کو بالکل درست مشورہ دیا کہ وہ سنجیدگی سے سیاست کریں۔ انھوں نے کہا ”یہ اللہ کی شان ہے کہ سرے محل میں پلنے والا بچہ بھی کرپشن کی بات کرتا ہے۔ ایسے بیانات سے ہیڈلائن تو بن سکتی ہے لیکن کوئی لیڈر نہیں بن سکتا۔”
Democracy
سوال یہ ہے کہ ہم جمہوری اقدار کی حفاظت کی بجائے ذاتیات پر کیوں اترتے جا رہے ہیں؟ ہمارے صبروتحمل کی حدیں کیوں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ہم یہ سوچنے کے لیے کیوں تیار نہیں کہ پاکستان کو چاروں طرف سے مشکلات میں گھیرنے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ امریکہ اور بھارت کی شر اور خباثت سے طورخم بارڈر پر افغان فورسز نے حملہ کرکے میجرجوادچنگیزی کو شہید کر دیا اور تاحال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ اشعال انگیزی کے انتہا تھی جس کے بارے میں وزیردفاع خواجہ آصف نے دوٹوک کہا کہ میجرجواد کی شہادت کا بدلہ لیا جائے گا۔ ہمارا افغانستان سے کوئی جھگڑا نہیں بلکہ ہم تو گزشتہ 34 سالوں سے 30 لاکھ افغانیوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہیں۔ طورخم بارڈر پر بننے والی پوسٹ بھی باہم افہام و تفہیم سے بن رہی تھی اور 22/20 دنوں تک یہ پوسٹ تعمیر بھی ہوتی رہی لیکن پھر اچانک افغان سکیورٹی فورسز نے حملہ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی شہ کے بغیر افغانستان ایسا قدم اٹھا سکتا تھا؟ کیا افغان فوج جس کے 15 فی صد فوجی بھاگ چکے اور 15 فی صد کسی بھی وقت بھاگنے کو تیار بیٹھے ہیں، کسی بھی صورت میں پاک فوج کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہے؟۔
اگر نہیں تو پھر ہمیں سمجھ لینا چایے کہ یہ سب ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس ایجنڈے کے مرتبین امریکہ اور بھارت ہیں جنھیں اقتصادی راہداری کسی صورت ہضم نہیں ہو رہی اور اب ان کی بھرپور کوشش ہے کہ ہمارے پڑوسی افغانستان اور ایران کو پاکستان کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اپنے اس مقصد میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ پر ایران افغانستان اور بھارت کا سہ فریقی معاہدہ ہو چکا جس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت کتنی تیزی سے خطے میں اپنے قدم جماتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جمہوری قوتوں کا یہ عالم کہ جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ زبان کی شائستگی قصۂ پارینہ بن چکی اور تحمل، تدبروبرداشت کا مادہ ختم ہو چکا۔ ایک ٹی وی چینل پر جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر حافظ حمداللہ اور ماروی سرمد کے جھگڑے کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا۔ حافظ صاحب سے سوال ہے کہ کیا اسلام ہمیں یہی کچھ سکھاتا ہے جو آپ نے ایک خاتون کے ساتھ کیا؟ کیا اسلام کسی کو بولنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق نہیں دیتا؟۔
ماروی سرمد نے جو کچھ کہا، اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور شاید ہمیں بھی اختلاف ہو لیکن اس اختلاف کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ طیش میں آ کر غلیظ گالیاں دی جائیں اور پیٹنے کی کوشش کی جائے؟ ہمیں تو حیرت ہے مولانا فضل الرحمن پر جنھوں نے اپنے سینیٹر کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ رہی نیوزچینل کی بات، تو اس جگ ہنسائی کے جرم میں وہ بھی برابر کا شریک ہے یہ پروگرام لائیو نہیں پہلے سے ریکارڈشدہ تھا۔ اس لیے اوّل تو اسے ”آن ایئر” کرنا ہی نہیں چاہیے تھا لیکن اگر کیا بھی جاتا تو وہ سارے حصے حذف کر دیے جاتے جن کو دیکھ کر ہر غیرت مند پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا اور پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی۔ لیکن چینل مالکان کو تو ریٹنگ درکار تھی اسی لیے سب کچھ ایسے ہی دکھا دیا گیا جیسے ”لائیو” پروگرام ہو۔ اب دیکھیں پیمرا اس پر ایکشن لیتا ہے یا نہیں۔