24مارچ2013ء کو چیف الیکشن کمشنر نے جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کو ملک کا نگران وزیراعظم مقررکر دیا ،مسلم لیگ نواز یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں جانے کی صورت میں جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے حق میں فیصلہ آئے گا ،جبکہ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کو منتخب کیا جائے گا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں جماعتوں نے یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کی سطح پر طے نہیں کیا،مگر الیکشن کمیشن نے غیر متوقع طور پرمیرہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم منتخب کرکے حکومت اور اپوزیشن دونوں کوسرپرائز دے دیا اور خوش اسلوبی سے پہلے معرکے میں کامیابی حاصل کرلی،پاکستان کے موجودہ نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کا تعلق بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے ہے۔
جو سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے،اُمید ہے کہ اُن کے انتخاب سے شورش زدہ بلوچستان کے احساس محرومی میں کمی واقع ہوگی،میرہزار خان کھوسو 3 ستمبر 1929ء کو ضلع جعفرآباد کے گاؤں اعظم خان میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1954ء میں سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد1956ء میں کراچی یونیورسٹی سے قانون کی سند حاصل کی۔
میرہزار خان کھوسو 20 جون 1977ء کو بھٹو حکومت کے آخری ایام میں بلوچستان ہائی کورٹ کے عارضی جج بنے،بعد میں ضیاء الحق نے انہیں مستقل کردیا،وہ بطور چیف جسٹس 29 ستمبر 1991ء کو ریٹائر ہوئے،ریٹائرمنٹ کے بعد میرہزار خان کھوسوکو وفاقی شرعی عدالت کا جج بنایا گیا اور 17 نومبر 1992ء کو میاں نواز شریف کے دور میں میرہزار خان کھوسو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس بنے۔
ٹھنڈے اوردھیمے مزاج کے میر ہزار خان کھوسو کا خاندان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہے، لیکن مقامی سیاست میں میرہزار خان کھوسو ہمیشہ ظہور خان کھوسو کے حامی رہے ہیں، جو پہلے تو جمہوری وطن پارٹی سے وابستہ تھے مگر اب مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں،شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے میر ہزار خان کھوسو کی نامزدگی پر اعتراض نہیں کیا اور کھلے دل سے الیکشن کمیشن کے اِس فیصلے کو قبول کرلیا،84 سالہ نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو سندھی، اردو، بلوچی، انگریزی روانی سے بولتے ہیں،اُنہوں نے خود وکوہمیشہ سیاست سے دوررکھا۔
Mir Hazar Khan Khoso
وہ ایک تجربہ کاراوردیانت دار شخصیت کے مالک ہیں ،اِس وقت نگران حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج پرامن اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد ہے اورآئینی طور پر نگران حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری غیرجانبدارانہ اورشفاف انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کی مدد اوراہم ریاستی امورانجام دینا ہے،یہ درست ہے کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کی اپنی صوابدید ہے،مگروہ کسی ایسے شخص کو وزیریا مشیر نہیں بناسکیں گے جو کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا انتخابات میںقومی یا صوبائی اسمبلی کاامیدوار ہو،انہیں وفاقی کابینہ کے انتخاب میں آئین کے آرٹیکل62-63 کا بھی خیال رکھنا ہوگا،جس کا مطالبہ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔
گوپاکستان میں آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کے حوالے سے کوئی قابل فخر ریکارڈ دستیاب نہیں،ماضی میںفوج ہی نگران وزرائے اعظم لاتی رہی،ملک معراج خالد، معین قریشی ،سرداربلخ شیرمزاری اور محمد میاں سومرو تک نگران حکومتوں کے اقدامات کے حوالے سے یہی تاثرملتاہے کہ اُس کے پیچھے فوجی ایجنڈہ موجودرہا،یہی وجہ تھی کہ الیکشن کے دوران مخصوص سیاسی پارٹیوں کی کردارکشی کیلئے پرانے مقدمات کو زندہ کرنا نگران حکومتوں کا دستور رہا،اسی طرح ماضی میں نگران حکومتوں کی اقتصادی اصلاحات نے پاکستان کے سیاسی افق پر بہت ہلچل مچائی۔
کرپشن ،اقتصادی بحران،سیاستدانوں کاقرضے لے کر واپس نہ کرنا،زرعی ٹیکس کا نفاذ یہ سب ایسے معاملات ہیں جوہمیشہ عام انتخابات کے موقع پرموضوع بحث بنے ، عموماً کچھ حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہاکہ قوم کا اربوں روپیہ ہڑپ کرنیوالوں کوالیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے،ماضی میں نگران حکومتوں نے کرپشن کے خاتمے اورقرضوں کی وصولی کیلئے کچھ اقدامات کیے۔
لیکن یہ اقدامات اورقانون سازی اِن کرپٹ افراد کیلئے ریت کی دیوار ثابت ہوئی اورملک وقوم کااربوں روپیہ ہڑپ کرنیوالے اسمبلیوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوہی گئے ،اِسی طرح معین قریشی کے دور میںڈیفالٹرز افراد کی ایک لسٹ بھی اخبارات میں شائع کرائی گئی مگر معاملہ جوں کا توں ہی رہا اور انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ ایکدوسرے کا راستہ روکنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
یہاںیہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں کہ نگران حکومتوں نے انتخابی اصلاحات کیلئے کچھ تجربے بھی کئے ،جن میں1997ء کے الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات کے تحت اقلیتوں کو دوہرے ووٹ کاحق دیا جانا بھی شامل ہے،اِن انتخابی اصلاحات کے تحت الیکشن میںشناختی کارڈ کی پابندی کا بھی خاتمہ کردیا گیا، ضروری محسوس ہونے پر کوئی بھی دوسری شناخت دیکھائی جاسکتی تھی، اِس مخلوط طریقہ انتخاب پرکڑی تنقید ہوئی۔
Muslim League (N)
جے یوپی،جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) سمیت کئی دینی جماعتوں نے جداگانہ طریقہ انتخاب کی شدید مخالفت کی اور اسے پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا حربہ قرار دیا، اُس وقت جمعیت علماء پاکستان کے سربرہ مولانا شاہ احمد نورانی نے حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھاکہ ملک میں متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب رائج کیا جائے اورووٹوں کے تناسب سے سیٹیں مختص کی جائیں،خیال رہے کہ جداگانہ طریقہ انتخاب ضیاء الحق نے1985ء کے غیرجماعت انتخابات میں بھی متعارف کروایا تھا،اُن کے نزدیک اِن انتخابی اصلاحات کامقصد اقلیتوں کے احساس محرومی ختم کو کم کرنا اور انہیںقومی دھارے میں لانا تھا،لیکن دینی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے بعد میں یہ مخلوط طریقہ انتخاب ختم کردیاگیا،مگر جنرل مشرف نے 2002ء کے الیکشن میں بحال کرکے اقلیتوں کو ایک بار پھر دوہرے ووٹ کا حق دے دیا ،یوں 2007ء کے الیکشن بھی اسی مخلوط طریقہ انتخاب کے مطابق ہوئے اورمئی 2013ء کے الیکشن میں بھی یہی طریقہ انتخاب رائج رہے گا۔
یہ درست ہے کہ اِس وقت موجودہ الیکشن کمیشن کسی حد تک ایک آزاد ادارہ ہے،مگر ابھی اتنا بااختیارنہیں ہے جتنا کہ بھارت اور دیگر مغربی ممالک میںہے،اِن ممالک میں نگران حکومت کی ضرورت اِس لیے محسوس نہیں ہوتی کہ ریاست کے دوسرے ادارے بالخصوص الیکشن کرانے والے ادارے آزاد اور بااختیار ہوتے ہیں، اگر امریکہ میں کوئی امیدوار قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پہلے تو الیکشن کمیشن اُس کی گرفت کرتا ہے اُس کے بعد عدالتیں گھیرا تنگ کر دیتی ہیں، بھارت میں تو الیکشن کمیشن اتنا بااختیار ہے کہ کلیدی عہدوں پر لوگوں کے تبادلے کر سکتا ہے۔
کسی بھی ادارے کو مخصوص حکم یا طرزعمل اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، وہ پارٹیوں اور امیدواروں کے اخراجات کی مسلسل جانچ پڑتال کرتا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں اُسے سزا بھی دیتا ہے،اِن حقائق مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کودیگر ممالک کی طرح ایک مکمل آزاد اور بااختیار ادارہ بنایا جائے ،اگر ایسا ہوگیا تو یہ عمل پاکستانی جمہوریت کے ارتقاء کیلئے ایک بڑااور اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
مگر افسوس جب سے الیکشن کمیشن کوکسی حد تک ایک آزاد ادارہ بنا دیا گیا ہے،نگراں حکومتوں کی تشکیل میں ہر سیاسی جماعت کی یہ خواہش رہی کہ اُس کی پسند کا نگراں سیٹ اپ قائم ہو،سیاسی جماعتوں کا یہ عمل اِس بات کا عکاس ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں عوامی مقبولیت اور ووٹ حاصل کرنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود حکومتی سرپرستی سے محروم ہونا پسند نہیں کرتیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی طرح ایک آزاد اور بااختیار ادارے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔اور نگران حکومت اُسے یہ کردار ادا کرنے میں کس حد تک دومعاونت فراہم کرتی ہے،ابھی بھی بعض حلقوں کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد پر شکوک وشبہات کااظہار کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ الیکشن ملتوی ہوجائیں گے اور موجودہ نگران سیٹ اپ دوسال تک چلے گا،پہلے احتساب ہوگا پھر انتخاب۔
PPP
خود نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو وہ اپنے منصب سے مستعفی ہو جائیں گے،اِس کا مطلب یہ ہے کہ نگراں وزیراعظم کے تقرر اور انتخابات کے نظام الاوقات کا اعلان ہونے کے باوجود انتخابات کے انعقاد کے یقینی ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات ختم نہیں ہونے پائے اوربروقت انعقاد کے ساتھ منصفانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کا سوال اپنی جگہ بدستور موجود ہے ،جبکہ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے بھی کچھ جماعتوں کے تحفظات ہیں،اسی طرح سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ پر تو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
گوپیپلز پارٹی وفاق، سندھ اور پنجاب میں اپنی مرضی کی نگراں حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے جو نگراں حکومتوں کے غیر جانبداری کے تصور کو مشکوک کررہی ہے،یہی وجہ تھی کہ ماضی میں جانبدار عبوری حکومتوں کے تحت شفاف اور آزادانہ انتخابات پراعتبار نہیں کیا گیا اور آئینی ترمیم کے ذریعے غیر جانبدار نگراں حکومت کا تصور متعارف کرایا گیا۔
چنانچہ 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ٔ ایک نیا تجربہ سامنے آیا ہے،لہٰذا الیکشن کمیشن اِس حوالے سے اپنا آئینی کردار ادا کرے اور نگراں حکومت اپنی غیر جانبداری ثابت کرتے ہوئے صاف ، شفاف اورغیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرے،یہی دونوں کا اصل امتحان و آزمائش ہے۔ تحریر : محمد احمد ترازی mahmedtarazi@gmail.com