جو کام حکومت اور اپوزیشن ملکر نہ کرسکی وہ الیکشن کمیشن نے دو دن کے اندر اندر نمٹا دیا نگران وزیراعظم کیلئے جسٹس(ر) ہزار خان کھوسو کا اعلان خوش آئند ہے اور الیکشن کمیشن نے ایک بہتر فیصلہ کیا ہے اپوزیشن اور حکومت کا متفق نہ ہونا اچھی روایت نہیں بہتر ہو تا کہ حکومت اور اپو زیشن کسی نگران وزیر اعظم کے نام پر متفق ہو تے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ہزار خان کھوسو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوسرے وزیراعظم ہیں اس سے پہلے میر ظفر اﷲ جمالی کو (ق) لیگ کی طرف سے وزیراعظم بنایا گیا تھا جسٹس(ر) ہزار خان کھوسو اور میر ظفر اﷲ جمالی ایک دوسرے سے متصل اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں ہزار خان کھو سو ضلع جعفر آباد جبکہ ظفر اﷲ جمالی کا تعلق ضلع نصیر آباد سے ہے۔
او ریہ دونوں اضلاع بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن میں شامل ہیں جسٹس (ر) میرہزارخان کھوسو کی بطور نگران وزیراعظم تقرری بلوچستان میں عام انتخابات کا انعقاد کو یقینی بنانے اور قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند تنظیموں کو جمہوری عمل میں واپس لانے میں اہم پیش رفت ثابت ہوگی کیونکہ جسٹس (ر) ہزار خان کھوسو اپنے طویل عدالتی تجربات اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر بلوچستان میں ہر سطح پر پسندیدگی سے دیکھے جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 5 میں سے چار ا رکان کے نگران وزیراعظم کیلئے جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کے نام پر متفق ہونے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ان کا بلوچستان سے تعلق ہے جبکہ بلوچستان میں بلوچ لبریشن فرنٹ ، بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ ری پبلکن آرمی سمیت متعدد علیحدگی پسند تنظیموں نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کی کال دے رکھی ہے اور موجودہ حالات میں انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی کی فضاء موجود ہے لہٰذا بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے تعلق رکھنے والے جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو کی بطور نگران وزیراعظم تعیناتی سے بلوچستان کی فضاء میں انتخابات کے حوالے سے مثبت تبدیلی آئے گی۔
Election Commission
جبکہ نگران وزیراعظم کیلئے ان کے نام پر اتفاق کے پیچھے بھی یہی سوچ کار فرما ہے کہ بلوچستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو ممکن بنایا جاسکے جس کے بعد مذکورہ فیصلے سے بلوچ قوم پرست جماعتوں کا بھی عام انتخابات پر اعتماد پختہ ہوگا جبکہ پارلیمانی کمیٹی نے جن 4شخصیات کے نام نگران وزیراعظم کیلئے الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے ان میں 3 یعنی جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ، ڈاکٹر عشرت حسین اور رسول بخش پلیجو پر اعتراضات لگائے گئے لہٰذا اگر الیکشن کمیشن ان میں سے کسی کو نگران وزیراعظم نامزد بھی کرتا تو یہ ایک متنازعہ فیصلہ بن جاتا اس کے برعکس جسٹس (ر) میرہزار خان کھوسو پر نسبتاً کم اعتراضات تھے۔
نگران وزیراعظم کیلئے نامزد میر ہزار خان کھوسو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت کے پسندیدہ رہے ہیں’ وہ ہائیکورٹ کے عارضی جج ذوالفقار علی بھٹو دور میں بنے’ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بینظیر بھٹو کے دور میں بنے اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس کی ذمہ داری نواز شریف نے سونپی’ زرداری نے مرکزی زکوٰة کونسل کا چیئرمین بنایا ۔ میر ہزار خان کھوسو 3 ستمبر1929 کو بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے گاؤں اعظم خان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1954 میں سندھ یونیورسٹی سے گریجویشن اور دو برس بعد کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
میر ہزار خان کھوسو ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے آخری ایام میں20 جون1977 کو بلوچستان ہائی کورٹ کے عارضی جج بنائے گئے اور وہ ضیاالحق کے دور میں پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر مستقل جج بنے۔ جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو 1990ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور29 ستمبر 1991کو اس عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں انہیں وفاقی شرعی عدالت کا جج بنایا گیا اور وہ میاں نواز شریف کے دور میں 17 نومبر 1992 کو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس بنے۔
میر ہزار خان کھوسو سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھی انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں انہیں وفاقی زکوٰة کونسل کا چیئرمین لگایا گیا اور وہ اپنی نئی ذمہ داری ملنے تک اسی عہدہ پر کام کررہے تھے۔ نگران وزیراعظم جسٹس (ر) میر ہزار خان کھوسو جن کا نام پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے نگران وزیراعظم کیلئے تجویز کیا تھا ان کا اپنا گھر پیپلز پارٹی ‘ تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے درمیان تقسیم ہے۔ جسٹس (ر) کھوسو کے بڑے صاحبزادے مہراب خان کھوسو 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
PTI
ان کے دوسرے صاحبزادے امجد خان کھوسو ایڈووکیٹ حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ ان کے قریبی رشتہ دار ظہور کھوسہ جن کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دیا گیا تھا وہ سابق وزیراعظم ظفر اﷲ جمالی کے علاقائی سیاست میں سب سے بڑے حریف ہیں۔
ظہور کھوسہ اپنی نااہلی کے بعد (ن) لیگ میں شامل ہوگئے تھے اور ابھی پنجاب میں نگران وزیر اعلی کے جن ناموں پر پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے ان میں جسٹس (ر) زاہد حسین، نجم سیٹھی ،خواجہ ظہیر اور جسٹس (ر) عامر رضا خان شامل ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کے سیاستدان اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا مرکز کی طرح ناکام رہتے ہیں۔