تحریر: عتیق الرحمن دنیا کا کوئی فرد اپنے کسی بھی محسن کو فراموش کرنے پر رضامند نہیں اور نہ ہی وہ اپنے محسن کی توہین کسی پل برداشت کرسکتے ہیں اسی لیے سارے عالم میں اس امر کی دائمی متابعت اور محسنین کی رفعت و بلندی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی ہوئی ہے۔ اس قانون سازی میں تمام ادیان عالم اور تمام مغربی و شرقی ممالک بھی اقربا کی عزت و عظمت کو یقینی بنانے کو لازمی سمجھتی ہے۔اسی طرح مذاہب عالم اور دنیا کی ساری قومی اپنی مذہبی و سیاسی و نجی آزادی کا راگ آلاپتے ہیںاور اس آزادی پر ضرب لگانے والے کو کسی صورت معاف نہیں کرتے۔مثلاً صلیبی جنگوں کے بپاہونے کا جو سبب مستشرقین بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی قبر کو مسلمانوں نے اکھاڑااور اسی طرح مسلمان حج پر آنے والے مسیحیوں کو ظلم و ستم اور عتاب کا شکار کرتے تھے۔ اس پس منظر کو دیکھ کر بآسانی سمجھا جاسکتاہے کہ زمانے کے سبھی سماج و دھرم اور قومیں اپنے ادیان کا کس طرح تحفظ کرنا لازم سمجھتی ہیں کے وہ اس کے لیے میدان جنگ میں بھی داخل ہوجانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب جائزہ لیا جائے کہ جو مذاہب یا مذاہب کے پیروکار اپنے دھرم کے تحفظ کو یقینی جانیں اور اس پر ضرب لگے تو مرنے مارنے پر تیار ہوجائے تو وہ کیوں کسی دوسرے دھرم کا بھی اس طرح احترام نہیں کرتے کیوں کہ مذہب تو مذہب ہے زبردستی کسی پر مسلط نہیں کیا جاسکتااور اسی امر کا خود مدعا مغرب ہے کہ دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے وطن سب کا ہے ۔مگر افسوس مغربیوں کا یہ نقطہ یا فیصلہ مسلمانوں کے حق میںہمیشہ دیگر مسائل کی طرح یہاں بھی یکسر مختلف ہوجاتاہے کہ نہ تو وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ یہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی تاقیامت کی انسانیت کے لیے دین حق ہے مگر ماننایا نہ ماننا اس پر تو کوئی کلام نہیں کیا جاسکتاکیوں کہ رب قدیر نے خود ہی فرمادیا اپنے کلام میں ”لااکراہ فی الدین”دین میں داخل ہونے کے لیے ہونے میں کوئی جبر نہیں۔
البتہ مسئلہ تب پیچیدہ ہوتاہے جب اس دین کو ماننے والے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو گاہے بگاہے اس دین حق کا پیرو ہونے کی وجہ سے ظلم و جبر کا شکار بنایا جاتاہے اور اسی طرح ان کے مقر ب و محترم اور محبوب ترین ہستی پر نقد یا ان کا تمسخر اڑایاجاتاہے۔نبی مکرم ۖ وہ مقرب ہستی ہیں کہ جن کو اللہ نے خاتم النبیین بناکر مبعوث کیا اور آ پ کو تاقیامت کی انسانیت کے لیے قائد و رہبر مقرر فرمایا ۔پیغمبر حق کی تعلیم کو دیکھاجائے تو بے ضرر نظر آتی ہے کہ جس نے خود کسی پر دست درازی تو کجا جس نے ان سے برا سلوک کیا ان کے ساتھ بھی احسان اور عفو وکرم سے پیش آئے ۔وہ نبی جس نے انسانیت کو ظلم و تاریکیوں کے گڑھوں سے نکال کر روشنی میں بسیرابنانے کا سماں مہیا کیا ،وہ ہستی جس نے کبھی دشمن پر جنگ میں بھی تلوار نہیں اٹھائی،وہ محترم و مکرم ذات جس نے صحابہ کو تعلیم دی کہ کسی کے دین پر نقد نہ کرو کیوں کہ ایسا ہوسکتاہے کہ وہ ان جانے میں خدا ئے حق کو جھٹلانے لگے اور اپنا ٹھکانہ جہنم کو ہمیشہ کے لیے بنانے ۔وہ ہستی جو پیکرحسن اخلاق تھی،وہ ذات جس کی صداقت و دیانت اور عدل کی گواہی خود مخالفین دیں،وہ نبی جو سارے عالم کے لیے رحیم بناکر بھیجے گئے ،وہ رسول جس نے اپنے چہیتاچچاکہ قاتل کو معاف کیا ،وہ داعی حق جس نے سماج میں محبت و مودت اور اخوت کے بھریرے کو رواج دیا ۔
Freedom
آج اسی ہستی کی ذات پر حملے کیے جاتے ہیں ،آج ان کے خاکے بنائے جاتے ہیں وہ بھی آزادی رائے کا اظہار کا نام دیکر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب آپ دنیا کے کسی قائد و رہبر کی توہین برداشت نہیں کرسکتے؟؟جب مذہب کو انسان کی ذات کا معاملہ قرار دے دیا ہے تو پھر کیوں دوسروں کے محترم ہستی کوتنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی دین اسلام پر حملہ کرتے ہیں تو کبھی پیغمبر حق کوبذریعہ فلم اور خاکوں کے تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی بھی مذہب یا دین کے ماننے والوں کو ہدف تنقید بنایاجائے گا تو کیا فطری تو پر اس میں اشتعال پیدا نہیں ہوگا؟؟جب کوئی دنیو کسی قائد پر اعتراض کرنے کو تیار نہیں تو کیوں دین اسلام کو ہدف تنقید بنایاجاتاہے اور کیوں اسلام کا تمسخر اڑایاجاتاہے ؟؟اب لازمی بات ہے کہ جب گستاخانہ خاکے شائع ہوں گے اور اس ہستی کو نشانہ تنقید بنایاجائے گا تو ان کے پیروکار کیا خاموش رہ سکتے ہیں ؟؟؟اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مغرب جس آزادی مذہب کا راگ آلاپتاہے خود ہی اس کو روندتاہے یہ دورنگی باعث حیرت ہے۔
فرانس میں جو خاکے شائع ہوئے یہ قابل مذمت ہیںاس پر مغرب و فرانس اور گستاخانہ خاکے بنانے والوں کو اپنے قانون کا احترام کرنا چاہیے کہ جب وہ خود دین کو انسان کا ذاتی عمل سمجھتے ہیں اور دین میں جبر و کراہ کو ناروامانتے ہیں اور ایسے ہی اپنے محسنوں کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کرسکتے تو کیوں دین متین اور اس کی مقرب ترین ہستی پر کاری ضرب لگاکر مسلمانوں کے جذبات و مجروح کیا جاتاہے ؟؟۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے مسلمان اپنی جانوں سے بھی زیادہ اپنے دین حق پر کسی صورت زبان درازی کو برداشت نہیںکرسکتے۔ اسی طرح گستاخانہ عمل کے جواب میں انفرادی طور پر قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل و قتال کا بازارسجانابھی کسی طور محبوب نہیں ہے ۔
مسلمانوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ تمام مسلم ریاستیں اجتماعی مطالبہ کریں کہ دین اسلام سمیت کسی بھی دین یا اس دین کی مقتدر ہستیوں کو ہدف تنقید بنانا جرم تسلیم کیا جائے۔اور اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ خالی خولی محبت نبویۖ کے اظہار احتجاجوں کے ذریعہ کرنے یا مذمت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کا اثر ان گستاخوں پر نہیں پڑتابلکہ مسلم امہ کی ذمہ داری و فریضہ ہے کہ وہ نبی برحقۖ کی تعلیمات کو صدق دل سے مانتے ہوئے اس کی روشنی میں دنیا کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جدوجہد شروع کرے ۔یہ قیادت صرف نعروں دعوئوں اور تقریروں یا احتجاجوں کے ذریعہ نہیں مل سکتی اس کے لیے علم کی دنیا میں داخل ہونا پڑے گا علم کو قریہ قریہ ،بستی بستی کے ہر فرد تک صحیح طور پر تریجیحا پہنچانا ہوگا۔اسلام کی پہلی وحی تعلیم کے حصول کی اہمیت و ضرورت پر دلالت کرتی ہے۔تو پھر ہم کیوں اس مجال میں پیچھے رہیں۔یہ مسلم بات ہے جو قوم علم کی دنیا میں مضبوط و قوی ہوگی اسی کا حق ہے کہ وہ زمانے بھر کو مسخر کرلے۔