اہلیت

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے سے فوج کے اندر ضطراب پا یا جاتا ہے جس کا اظہار وہ اپنے مخصوص انداز میں کر رہی ہے۔ اس کا ایک نمونہ تو ہم نے اس وقت ملا حظہ کیا جب جنرل پرویز مشرف عدالت میں پیش ہونے کی بجائے سیدھے ہسپتال پہنچ گئے اور ہر طرف یہ خبر پھیلا دی گئی کہ انھیں دل کا مرض لاحق ہے جس کی وجہ سے ان کا ہسپتال جانا ضروری تھا ۔کون تھا جس نے ان کے قافلے کارخ عدالت کی بجائے ہسپتال کی جانب موڑ دینے کا حکم صادر فرمایا تھا ؟ظاہر ہے یہ کام کوئی عام عہدے دار تو کر نہیں سکتا اور نہ ہی کسی میں اتنا دم خم ہے کہ وہ ایک جنرل کے کاروان کو کسی دوسری جانب مڑنے کا حکم صادر فرمائے جبکہ ملک کا وزیرِ اعظم جنرل پرویز مشرف کو عدالت سے سزا دلونے میں بے چین ہو۔ سوال یہ نہیں کہ جنرل پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوناچاہتا تھا۔ وہ تو اس سے پہلے بھی اپنی ضمانت کے سلسلے میں کئی بار عدالت میں پیش ہو چکا ہے۔ سوال عدالت میں حاضر ی کا نہیں ہے بلکہ اس مقدمے کی نوعیت کا ہے جو اس کے خلاف قائم کیا گیا ہے۔

کوئی لاکھ کہتا رہے کہ یہ مقدمہ ایک سابق فوجی جرنیل کے خلاف ہے جس سے موجودہ فوج کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فوج اپنے سابق آرمی چیف کو غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے کیلئے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہونے دے گی۔ اگر کسی فوج کا سربرا ہغدار ثابت ہو جائے تو پھر پوری فوج کی حب الوطنی کی حیثیت کیارہ جائے گی؟ ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ اگر کسی مخصوص جماعت اور گروہ کے فوجی شب خون سے اقتدار میں آنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو شب خون متبرک بھی قرار پاتا ہے،فوجی آمر سے معاہدے بھی ہوتے ہیں ،فوجی آمر کو روحانی باپ بھی تسلیم کیا جاتا ہے اورفوجی آمر کی تو صیف و توصیح میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے جاتے ہیں لیکن اگر فوجی شب خون سے کسی سیاسی جماعت کو محرو میِ اقتدار کا خدشہ ہو تو فوجی آمر غداری کا مرتکب قرار پاتا ہے۔ پاکستان کی ساری سیاسی تاریخ اقتدار کے حصو ل اور سمجھوتوں کی تاریخ ہے۔ مخالف کو نیست و نابود کر دو اور جو طاقتور ہے اس سے سمجھوتہ کر کے جان بخشی کروا لو یہی پا کستانی سیاست کا خاصہ رہا ہے اور اس میں آج بھی کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔

جنرل پرویز مشرف کے بارے میں تو مشہور کہ وہ دھشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے لہذا جیسے ہی دھشت گردوں کو موقعہ ملے گا وہ جنرل پرویز مشرف کو خود کش حملے میں اڑا دیں گئے لہذا ایسی صورتِ حال میں کوئی شخص جنرل پرویز مشرف کو اپنی مرضی سے طے شدہ روٹ کی بجائے کسی دوسری جانب لے جائے ممکن ہی نہیں ہے۔انھیں تو خصوصی حصار میں رکھا جاتا ہے تا کہ کوئی دھشت گرد ان تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔کاروانِ مشرف کو ہسپتال کی جانب موڑنا ان قوتوں کی کارستانی ہے جھنیں نادیدہ ہاتھوں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور جن کے شکنجوں سے سبھی خائف رہتے ہیں اور جن کا سرِ عام نام لینا بھی کوئی پسند نہیں کرتا کیونکہ نام لینے والے کو بھی علم ہوتا ہے کہ نادیدہ قوتوں کا سرِ عام نام لینے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ کیسا عجیب لگے گا کہ پاکستان کا سابق آرمی چیف اور صدرِ مملکت دھشت گردوں کی تحویل میں ہو اور وہ اس سے ان سارے خفیہ رازوں کو بتانے کی ضد کریں جو ایٹمی اثاثوں،قومی معاملات اور دوسرے اہم رازوں کے بارے میں اس کے علم میں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی حفاظت پاکستان کی حفاظت کے مترادف ہے لہذا اس کی حفاظت اور سیکورٹی کے بارے میں حساس ہونا ضروری ہے۔

Iftikhar Mohammad Chaudhry

Iftikhar Mohammad Chaudhry

جہاں تک ٣ نومبر ٢٠٠٧ یا ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کا معاملہ ہے وہ عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس بارے میں کیا فیصلہ دیتی ہے ہمیں عدلیہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چائیے۔ ویسے قرائن سے تو یہی عندیہ مل رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ کچھ لوگ اس معاملے پر مٹی ڈا لنا چاہتے ہیں۔بات اگر جنرل پرویز مشرف تک ہی محدود رہتی تو کچھ مضائقہ نہیں تھا کہ اسے سزا بھی سنا دی جاتی لیکن اس میں عدلیہ کے چند انتہائی معزز ججز اور کئی پردہ نشینوں کے نام بھی شامل ہو رہے ہیں لہذا مٹی پائو پالیسی ہی فتح یاب رہیگی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری بھی اس مقدمے کی زد میں آسکتے ہیں کیونکہ انھوں نے بھی فوجی شب خون کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا۔

جنرل پرویز مشرف تو فرنٹ لائن کا ایک کردار تھا لیکن وہ کردار جو اسلام آباد او کراچی میں اپنی پھرتیاں دکھا رہے تھے اور شب خون کے اصل ذمہ دار تھے ان کا کیا بنے گا؟ کیا پاکستان کی ساری فوج اپنے ماتھے پر غداری کا تاج سجائے گی؟ بھارت تو یہ چاہتا ہے کہ ایسا ہو تا کہ اخلاقی طورپر ایک کمزور فوج پر اسے غلبہ پانے میں آسانی رہے لیکن اس کی یہ خو اہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ پاکستانی عوام اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ انھیں علم ہے کہ جو قومیں اپنے محافظوں سے غافل ہو جاتی ہیں یا انھیں ذلیل و رسوا کرنے کی سازشیں کرتی ہیں وہ خود بھی مٹ جایا کرتی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر فوج کو بدنام کرنے کی سازشیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں لیکن عوام اور فوج کی باہمی محبت نے ایسی ساری سازشوں کو ہمیشہ ناکام و نامراد بنا یا ہے کیو نکہ پاک فوج کے جری جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانوں سے پاک وطن کی مٹی کی حرمت کی جس طرح لاج رکھی ہے اور دشمن کے دانت کھٹے کئے ہیں وہ سب کیلئے قابلِ فخر ہے۔

پی پی پی نے تو اپنے دورِ حکومت میں جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کرر خصت کیا تھا ۔اگر وہ غدار تھا تو اسے اتنی شان و شوکت اور عزت و وقار سے رخصت کیوں کیا گیا تھا؟اسے تو اس وقت پاکستان سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہونی چائیے تھی تاکہ اس سے پرانے حساب چکا لئے جاتے ۔اس وقت تو مسلم لیگ (ن) کے ممبرانِ اسمبلی بھی اسی سے حلف اٹھاکر وفاقی کابینہ کا حصہ بنے تھے لیکن جیسا کہ میں نے پچھلے کالم میں بھی لکھا تھا کہ آصف علی زرداری فوج سے مہم جوئی کے حق میں نہیں تھے۔ انھیں خبر تھی کہ فوج سے پنگا ان کیلئے لاتعداد مسائل کھڑ ے کر سکتا ہے اس لئے انھوں نے مخاصمت کی راہ پر چلنے کی بجائے مفاہمت سے کام لیا اور یوں جموہریت کی گاڑی کو پٹری سے اترنے نہ دیا۔ ایسا کرنے میں حکومت تو بچ گئی لیکن کیا عوام کی حالت میں بھی کوئی تبدیلی دیکھنے میں آئی یہ موضوع ایک الگ کالم کا متقاضی ہے جس پر کسی وقت بعد میں اطہارِ خیال کیا جائیگا۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کو نام نہاد جمہوریت کے نام پر بڑی بے رحمی کے ساتھ لوٹا گیا ہے۔خاندانی بادشاہتیں عوام کا مقدر بنی ہوئی ہیں جس میں عوامی فلاح و بہبود کی بجائے جیبیں بھرنے کا دھندا زیادہ ایمانداری سے چل رہا ہے۔

جس ملک میں عدلیہ کے بے پناہ اصرار، دبائو اور زورو شور کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا وہاں پر جمہوریت کا رونا روناچہ معنی دارد۔ حصولِ اقتدار کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جمہوریت کے نعرے بلند کرتے جائو کیونکہ اقتدار جمہوریت کے انہی نعروں میں مضمر ہے لہذا ایک نہ ایک دن اقتدار خود بخود پکے پھل کی طرح جھولی میں آ گرے گا۔جمہوریت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن ہمارے اکثر قائدین کے رویے حقیقی جمہوریت کی مکمل نفی کرتے ہیں جس سے جماعتیں ان کی ذاتی خواہشوں کی غلام بنی ہوئی ہیں۔نہ جماعتوں میں انتخابات ہیں، نہ ہی کوئی تھینک ٹینک ہیں اور نہ ہی کوئی پالیسی ساز ادارے ہیں جو جماعتوں کو فیڈ بیک دے سکیں تاکہ جماعتیں واضح پالیسیاں بنا کر ملک کی نئی سمت کا تعین کر سکیں۔ یہاں پر سلطان ابنِ سلطان کی روش جاری ہے اور عوام کو اسی روش کا عادی بنایا جا رہا ہے۔باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پھر بیٹا یہی ہماری جمہوریت کی کہانی ہے۔ متوسط طبقے کے اہل افراد کو جان بوجھ کر اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھا جاتا ہے تا کہ موجودہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کے خلاف بغاوت کا احتمال نہ رہے۔ ایک مخصوص ٹولہ ہے جو جو اقتدار کی مسند پر براجمان ہے اور عوام کا جی بھر کر استحصال کر رہاہے۔ عوام موجو دہ جمہوری ڈھانچے سے تنگ ہو چکے ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ اس نام نہاد کرپٹ جمہوری نظام میں ان کے مقدر کو بنانے، سنوارنے اور نکھارنے کی اہلیت و سکت نہیں ہے۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر: طارق حسین بٹ ( چیر مین پیپلز ادبی فورم )